اسرائیلی بربریت کی انتہاءاور کور کمانڈرز کانفرنس کا عزم

چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ 260 ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں غزہ، اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی طرف سے طاقت کے بے دریغ استعمال کے باعث معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے باور کرایا کہ فلسطینی عوام کو پاکستانی قوم کی مکمل حمائت حاصل ہے اور ہم مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل، ان کی سرزمین اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پر غیر قانونی قبضے کے خاتمے کے لئے اپنے بھائیوں کے اصولی موقف کی حمائت جاری رکھیں گے۔ اجلاس میں خطے کی صورت حال، قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور بڑھتے ہوئے خطرات کے جواب میں اپنی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ملک کو درپیش ہر قسم کے بالواسطہ اور بلاواسطہ خطرات کے خلاف پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لئے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اجلاس میں اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے دشمن قوتوں کے اشارے پر کام کرنے والے تمام دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کے خلاف ریاست مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔ 
غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی جارحیت اور بیت المقدس پر صیہونی تسلط کے ردعمل میں دو ہفتے قبل فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم حماس نے ایک مربوط اور مضبوط حکمتِ عملی کے ساتھ اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا جو ان کی طرف سے فلسطین کی آزاد ریاست کی بحالی کے لئے کشتیاں جلا کر میدان میں اترنے کا پیغام تھا جس کے جواب میں اسرائیل نے امریکہ کی مدد و معاونت سے فلسطینیوں پر باقاعدہ جنگ مسلط کر کے انہیں صفحہ ہستی سے ملیامیٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس دوران اسرائیلی فوجوں نے عالمی قوانین اور قوام متحدہ کے چارٹر میں وضع کردہ جنگی اصولوں کو بھی پاﺅں تلے روندتے ہوئے غزہ کے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں ، مساجد اور دوسرے پبلک مقامات پر اب تک وحشیانہ اور ننگِ انسانیت بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔ گزشتہ روز اسرائیلی فوجوں نے غزہ میں ایک ہسپتال پر حملہ کیا جس میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی ایک ہی ساعت میں شہید ہو گئے۔ اس ہسپتال میں زیادہ تر وہ باشندے زیر علاج تھے جو غزہ میں اسرائیلی بمباری سے زخمی ہوئے تھے، جبکہ ان کے لواحقین بھی ہسپتال میں موجود تھے۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری سے حماس کے لیڈر اسماعیل حانیہ کے بھائی سمیت ان کے خاندان کے 14 افراد بھی شہید ہوئے جبکہ اس جنگ میں اسرائیلی حملوں سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 3500 سے تجاوز کر چکی ہے، ہزاروں فلسطینی زخمی ہو کر بے یارو مددگار پڑے ہیں جن کے لئے ادویات اور خوراک تک ناپید ہو چکی ہے اور گھر تباہ ہونے کے باعث وہ کھلے آسمان تلے کسمپرسی میں پڑے اللہ کی غیبی امداد کے علاوہ مسلم امہ کی امداد کے بھی منتظر ہیں۔ اسرائیلی بے رحمی اور سفاکی کا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے فلسطینیوں کو غزہ سے 24 گھنٹے کے اندر اندر نکل جانے کا الٹی میٹم دیا اور جب کچھ فلسطینی خاندان غزہ سے روانہ ہوئے تو اسرائیل نے ان کے قافلوں پر بھی بمباری کی جس کے باعث بیسیوں فلسطینیوں بشمول خواتین اور بچوں کی شہادتیں ہوئیں ایک بچے کے ماں باپ سمیت پورا خاندان شہید ہوا جس کے بے بسی سے کراہنے کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر آئی تو یہ کلپ دیکھنے والے لوگ عملاً سکتے کی کیفیت میں آ گئے مگر اسرائیل کے ان ننگِ انسانیت جنگی جرائم پر الحادی اہلِ مغرب تو کجا، خود مسلم دنیا بھی بے بسی کی چادر اوڑھے بیٹھی نظر آتی ہے ماسوائے ایران، قطر، ترکیہ کے کسی مسلم ملک کی جانب سے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز کی یکجہتی اور ان پر مسلط کردہ جنگ میں ان کی عملی معاونت کا ایسا اظہار کیا کیا گیا جیسا امریکہ نے حماس کے حملے کے فوری بعد اسرائیل کی حمائت میں نہ صرف اظہار کیا بلکہ اسے جنگی بحری بیڑے اور جدید ہتھیاروں کی کمک بھی ہنگامی بنیادوں پر پہنچا دی۔ جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن گزشتہ روز خود اسرائیل پہنچ کر اسرائیلی فوجوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے اور نہتے فلسطینیوں پر ان کے بے رحم حملوں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے رہے۔ 
اس صورتحال میں مسلم دنیا بالخصوص عرب ریاستوں کی جانب سے محض رسمی مذمتی قراردادوں اور بیانات پر ہی اکتفاءکیا گیا اور اسرائیلی جارحیت کے تین روز بعد برادر سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بساط لپیٹنے کا اعلان کیا گیا جبکہ سعودی کابینہ نے گزشتہ روز فلسطینیوں کی بے دخلی کو قابلِ مذمت قرار دیا۔ پاکستان کی جانب سے بھی اب اسرائیلی جارحیت کے خلاف سخت ردعمل کا راستہ اختیار کیا گیا ہے اور کور کمانڈوز کانفرنس میں ملک کی عسکری قیادتوں کی جانب سے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا دوٹوک اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح قومی فلسطین کانفرنس میں گزشتہ روز ملک کی سیاسی، دینی قیادتوں کی جانب سے بھی فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت کی مذمت کی گئی اور عالمی قیادتوں سے مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے ٹھوس کردار ادا کرنے اور ان پر جارحیت کا سلسلہ بند کرانے کا تقاضہ کیا گیا۔ جبکہ مسلم دنیا کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کا بھی گزشتہ روز اجلاس ہوا جس میں عالمی قیادتوں سے اسرائیل، فلسطین جنگ رکوانے کے لئے کردار ادا کرنے کا تقاضہ کیا گیا۔ اس کے برعکس روس نے جنگ بندی کی کوشش کا عملی اقدام اٹھایا اور اس کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی مگر شیطان کے سرپرست امریکہ نے ویٹو پاور استعمال کر کے روس کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس قرارداد کے حق میں چار اور مخالفت میں امریکہ، برطانیہ سمیت پانچ رکن ممالک کے ووٹ آئے جس سے امن و آشتی کی خواہاں دنیا کو فی الحقیقت یہ پیغام دیا گیا کہ اسرائیل کی سرپرستی کے لئے انہیں امن سے کوئی سروکار نہیں۔ امریکہ نے تو گزشتہ روز ایران کو یہ دھمکی بھی دے دی کہ اس نے اسرائیل ، فلسطین جنگ میں فلسطین کی مدد کی تو امریکہ براہ راست کارروائی کرے گا۔ امریکہ نے اسرائیل کے لئے جنگی بحری بیڑہ بھجوا کر براہ راست کارروائی میں کوئی کسر تو پہلے بھی نہیں چھوڑی جبکہ امریکی صدر بائیڈن نے اسرائیل پہنچ کر بھی دنیا کو اسرائیل کا براہ راست دفاع کرنے کا ہی پیغام دیا ہے۔ 
اس وقت اسرائیلی بربریت سے فلسطینیوں کی جس حالتِ زار کی خبریں عرب میڈیا کے ذریعے آ رہی ہیں وہ انسانیت کا ماتم کرنے کے مترادف ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ غزہ پٹی کے اردگرد کی تمام آبادیاں حکومتی ہدائت کے مطابق خالی کرا لی گئی ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں صرف 24 گھنٹے کا پانی، بجلی اور ایندھن بچا ہے۔ جس کے بعد اصل تباہی شروع ہو گی۔ اسرائیلی فوج غزہ پر زمینی حملے کی بھی تیاری کر رہی ہے جس کی بلقسام بریگیڈ کی جانب سے بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسرائیل کا زمینی حملہ یقینا فضائی حملوں سے بھی زیادہ تباہ کاریوں پر منتج ہو گا اور غزہ میں انسانی خون اور گوشت کے چیتھڑوں کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ 
اگر اپنی ہی سرزمین کو غاصبوں سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی یہ سزا ہے تو کل کو کشمیری عوام بھی ہنود و یہود و نصاریٰ پر مبنی شیطانی اتحادِ ثلاثہ کے ہاتھوں اسی سزا کے مستوجب ٹھہریں گے۔ نمائندہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ تو ریاستوں اور مملکتوں کے مابین علاقائی اور عالمی تنازعات حل کرانے کے معاملہ میں قطعی غیر موثر اور ناکام ہو چکا ہے جبکہ الحادی قوتوں کی نمائندہ عالمی قیادتیں اپنے مسلم دشمن ایجنڈہ کو عملی جامہ پہنانے میں یکسو نظر آتی ہیں۔ اسرائیل کے لئے ان کی ننگی ڈھٹائی پر مبنی یکجہتی اس کرہ ارض کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیلنے کے اسباب پیدا کر رہی ہے۔ جو ایٹمی جنگ ہونے کی صورت میں آخری جنگ ہو گی جو اس کرہ ارض کی مکمل تباہی پر منتج ہو گی۔ کیا یہی وقت نہیں کہ علاقائی اور عالمی امن کی خاطر دنیا کی تمام طاقتیں اور نمائندہ ادارے اپنی اپنی مصلحتوں کے لبادے اتار کر انسانیت کی بقاءکے لئے عملی کردار ادا کریں۔ ورنہ تو کل کسی کے ساتھ اظہارِ افسوس کرنے والا بھی کوئی نہیں بچے گا۔

ای پیپر دی نیشن