کہتے ہیں اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے یہ کوڈ ورڈذ حقیقت میں افواج پاکستان کے لیے ہمارے سیاست دان یا حکمران استعمال کرتے آپ کو اکثر و بیشتر نظر آئیں گے جب ایک پاکستانی افواج سے منسلک ہوتا ہے تو نہ ہی اسکی کوئی مجبوری ہوتی ہے نہ ہی زور زبردستی بلکہ افواج میں شمولیت ملک کی محبت حفاظت کی خواہش ملکی و عوامی محبت کے جذبے سے سرشار انسان ہی فوجی یونیفارم پہنتا ہے تو وہ اعادہ کرتا ہے کہ ملک کو لاحق خطرات ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں دشمن۔کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنا پڑی تو دریغ نہیں کروں ایک فوجی ملکی سالمیت کو یقینی بنانے کی قسم اٹھاتا ہے وہ سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہوں یا اندرونی انتشار سازش کے نتیجے میں ہوں وہ ملک کی بہتری کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیتا ہے اسوقت ملک ڈیفالٹ کے خطروں سے دوچار ہے اکانومی سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہمسایہ ملک افغانستان ہمارے جذبہ محبت کو کمزوری سمجھ رہا تھا غیر قانونی مقیم پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے تھے انڈیا آنکھیں دکھا رہا تھا سرحد پار سے آنیوالی تنظیم ٹی ٹی پی دہشت گردی کی وارداتوں میں براہ راست ملوث ہے یہ کوئی راز کی باتیں نہیں ہمارے سیاست دان سب جانتے ہیں مگر اپنی سیاست کے باعث اپنی کمزوریوں کی وجہ سے فیصلے نہیں کرپاتے۔ کمزوری کا لیول یہ ہے کہ ماضی کے ہائیبرڈ حکمرانوں اور برسر اقتدار جماعت نے نا صرف دہشت گردوں سے مذاکرات کیے بلکہ گرفتار دہشت گردوں کو باعزت رہا بھی کیا اب ملک فیصلہ کن گھڑی پر پہنچ چکا سخت فیصلوں کی ضرورت تھی سیاسی حکومتیں اپنی سیاست بچانے کے غرض سے اہم ترین فیصلوں کے نفاذ سے گریزاں تھی پھر ہمیشہ کی طرح یہ قربانی بھی فوج سے ہی مانگی گئی خوش قسمتی سے اس وقت ملک پاکستان کا سپہ سالار ناصرف اپنے سینے میں قران سمائے ہوئے ہے بلکہ بہادری ایمانداری جذبہ حب الوطنی سے لبریز ہیں ۔چیف اف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نشان امتیاز ملٹری نے اپنے مضبوط ارادوں اور فیصلوں کو نگران حکومت کے گوش گزار کیا جسے نگران حکومت نے سراہا جنرل عاصم منیر نے بحرانوں میں گھرے ملک کو مضبوط حکمت عملی کے ذریعے ایک ماہ میں ہی بھنور سے نکال باہر کیا ملکی معیشت جو سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی اسکا پہلا قدم درست سمت ڈال دیا۔ ایک ماہ کے قلیل عرصہ میں ڈالر 55 روپے گرا لیا ڈالر 4 ستمبر کو 333 روپے 50 پیسے کا تھا۔ ڈالر نیچے انے سے ایکدم بیرونی قرضے چار ہزار ارب کم ہوگئے تجارتی خسارہ پچاس فیصد مزید کم ہوگیا گروتھ آوٹ لک ساڑھے تین فیصد تک آگئی پٹرول کی قیمت میں 50 روپے کا ریلیف دیکر عوامی دکھ کا مداوا بھی کردیا۔کبھی پچاس روپے پٹرول کی قیمت کم نہیں ہوئی مہنگائی کے جن۔کو بھی جنرل عاصم( نشان امتیاز ملٹری ) اور انکی ٹیم ہی قابوکرکے بوتل میں بند کرے گی بہترین فصلوں کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہوا دوست ممالک اور عالمی اداروں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوگیا سفارتی تعلقات مستحکم ہونے لگے ہر طرح کی سمگلنگ بند ہوگئی اور افغان ٹریڈ پر کنٹرول،حاصل کرلیا اور نا ممکن کو ممکن کر دیکھایا غیرقانونی تارکین کی واپسی جیسا سخت فیصلہ دلدل میں پھنسے پاکستان کو امن ترقی خوشحالی کی جانب ،گامزن کردیا پاکستان سے محبت کرنے والوں کو اور کیا چاہیے؟جنرل عاصم منیر کے ان مشکل فیصلوں میں انکے پر اعتماد ساتھیوں کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ زیادتی ہوگئی جنرل عاصم منیر کے پر اعتماد افسران میں لیفٹینیٹ جنرل سعید بھی شامل ہیں وہ بطور سی جی ایس خدمات انجام دے رہے ہیں لیفٹینیٹ جنرل سعید جنرل عاصم منیر کے ویژن کو نہ صرف آگے بڑھا رہے ہیں بلکہ وہ عاصم منیرکے اس نیک جذبے میں انکے شانہ بشانہ ہیں وہ انتہائی پروفیشنل اور ملکی محبت سے سرشار افیسر ہونے کے علاوہ انتہائی پڑھے لکھے اور ویثنری سوچ کے حامل آفیسر ہیں وہ ملکی و بین الاقوامی امور پر نہایت عبور رکھتے ہیں لیفٹینٹ جنرل سعید ڈیکوریٹیڈ آفیسر ہیں وہ ملکی و بین الاقوامی بے تحاشہ تمغہ جات بھی اپنی صلاحیتوں کے پیش نظر حاصل کرچکے ہیں۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکٹر چین کے دورے پر ہیں انوارالحق کاکٹر چین میں ون روڈ ون بیلٹ کانفرنس میں شرکت کے علاوہ چینی سرمایہ کاروں سے ملاقات کرکے پاکستان میں منافع بخش سرمایہ کاری کے پراجیکٹس بارے راغب کریں گے اس اقدام کی کامیابی سے ملکی معیشت صحت مند ہو گی انوار الحق کاکٹر بھی چاہتے تو وہ بطور نگران وزیراعظم حکومتی پروٹوکول مراعات انجوائے کرتے اور انتخابات کرواکر چلتے بنتے مگر سپہ سالار جنرل عاصم منیر نشان امتیاز ملٹری کے پروگرام کا حصہ بن کر مستحکم توانا معیشت کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں انوار الحق کاکٹر بھی بجپن سے اپنے دل میں فوجی وردی پہننے کے ارمان سجائے نوجوانی کی جانب بڑھ رہے تھے اخر کار وہ دن بھی ان پہنچا جب انوار کاکٹر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا اور وہ کوہاٹ کیڈٹ کالج پہنچ گئے انکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا انکی اپنے روم میٹ شہزاد خان سے گہری دوستی ہوگئی شہزاد خان بھی ملکی محبت سے سرشار تھے دونوں دوست مستقبل کے منصوبے بناتے اور ملک کو در پیش چیلنجز سے نپٹنے کا عزم کرتے کہ اچانک انوارالحق کاکٹر کو ایک روز اپنے گھر سے بری خبر موصول ہوئی کہ انکے پیارے والد جنہوں نے انھیں بڑے پیار سے پالا تھا کیونکہ انوار الحق کاکٹر کی والدہ انھیں بچپن میں ہی اس دنیا میں چھوڑ گئی تھیں والد نے انکی اور بیٹی کی پرورش ماں اور باپ بن کر کی تھی اور ان دو بہن بھائیوں کو اپنی حیثیت سے زیادہ پیار دیا پڑھایا لکھایا معاشرے میں شناخت دی ۔ با ہمت اور محبت کرنے والے باپ کو ایک خطرناک بیماری نے گھیرلیا تھاجس پر انوار تڑپ اٹھے سب چھوڑ چھاڑ کر والد کی خدمت کے لیے واپس آگئے والد کی خدمت علاج معالجے پر کمر بستہ ہوگئے والدکا سایہ زیادہ دیر انوار کے سر پر تو نہ رہا وہ انکو چھوڑ کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے اور انوارالحق کاکٹر اس ظالم دنیا میں دوسری مرتبہ یتیم ہوگئے انکے دوست روم میٹ شہزاد خان مقابلے کے امتحان میں منتخب ہوگئے اور انفارمیشن گروپ جائن کرلیا ایک طویل عرصہ کے بعد دونوں دوست آج وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں اکٹھے کام کر رہے ہیں شہزاد خان انتہائی دیانت دار پڑھے لکھے اور محب وطن انسان ہیں وہ بھی ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں وہ بطور پریس سیکرٹری ٹو پی ایم خدمات انجام دے رہے ہیں شہزاد خان سے میری ملاقاتیں انتہائی کم ہیں مگر دل میں انکے لیے دوستی محبت کے جذبات بے حد زیادہ ہیں ان سے پہلی ملاقات کی کہانی بھی حادثاتی ہے کسی دن اپنے کالم میں تحریر کروں گا۔ اب جب اتنا گہرائی میں چلا ہی گیا ہوں تو لکھے دیتا ہوں انوارالحق کاکٹر کی ہمشیرہ محترمہ جنکی شادی امریکی ریاست شکاگو میں ہوئی ایک دو بیٹے تھے کچھ عرصہ قبل انکی اسی مرض سے وفات ہوگئی جس سے انکے والد فوت ہوئے تھے محترمہ بہن کی موت کا غم ابھی تازہ تھا کہ انکے بیٹے یعنی انوارالحق کاکٹر کے بھانجے کی کار ایکسیڈنٹ میں موت ہوگئی جسکے کچھ عرصہ بعد دوسرے بھانجے کی کرونا میں وفات ہوگئی انوارالحق کاکٹر پر غموں کے طوفان ٹوٹ چکے ہیں وہ سینے دکھ کے دریا لیے منہ پر مسکراہٹ سجائے ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کی جدوجہد میں ہیں وہ اسقدر قدرتی آفات کا شکار ہوچکے ہیں کہ اب وہ تناور درخت کی طرح طوفانوں کا سامنا کر رہے ہیں انکے متعلق من گھڑت بے بنیاد یوٹیوبرز خبریں چلاتے ہیں انکی شادی مردان میں اپنے ننھیال میں ہوئی ہے انکا ایک بیٹا ہے جس کی عمر چھ سات سال ہے انکا بلوچستان ،خیبر پی کے یا پورے پاکستان میں یا دنیا بھر میں ذاتی گھر یا پلاٹ نہیں، انکے نام پر کوئی گاڑی نہیں ۔ انکو تنقید کا نشانہ صرف اور صرف اس وجہ سے بنایا جا رہا ہے کہ وہ سسٹم کا حصہ نہیں ہیں عام شہری ہیں کسی قبیلے کے سردار نہیں ہیں سرداروں وڈیروں کو کس طرح برداشت ہوگا کہ ایک سیدھا سادھا حلال روزی پر پروان چڑھا عام آدمی ملک کا وزیر اعظم بن بیٹھے اسے سرداروں کی شان میں سخت گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ انوارالحق کاکٹر وزیراعظم آرمی چیف جنرل عاصم منیر جنکا راولپنڈی میں ایک انتہائی مذہبی گھرانے سے تعلق ہے لیفٹینیٹ جنرل سعید احمد اور انکی ٹیم کا اکٹھے ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ محب وطنوں کا ملاپ اس مرتبہ پیارے وطن کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کرکے دم لے گا انشااللہ