پاکستان مسلم لیگ(ن)کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں حفاظتی ضمانت کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ سرنڈر کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے ، کیسز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں عدالت تک پہنچنے کے لیے گرفتاری سے روکا جائے۔نواز شریف نے 21اکتوبر کو پاکستان آنے کا اعلان کر رکھا ہے ان کی پاکستان واپسی میں دودن باقی ہیں نوازشریف کی طرف سے حفاطتی ضمانت کی درخواست یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے پاکستان آنے کے حوالے سے تمام شکوک وشبہات اب ختم ہو جا نے چاہئیں ،پاکستان آنے کے بعد جہاں نواز شریف کو کئی چیلنجز سے نمٹنا ہو گا وہیں ان کے لیے سب سے بڑا چیلینج کو آئندہ عام انتخابات سے قبل اپنی جماعت کی سیاسی مقبولیت بحال کرنا ہے جبکہ انہیںانتخابی مہم شروع کرنے سے پہلے کئی قانونی چیلنجز کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔اگرچہ نواز شریف کے قریبی ساتھی یہ سمجھتے ہیںکہ ان کو درپیش قانونی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے طویل قانونی کارروائی کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ ایون فیلڈ کیس میں ان کے شریک ملزمان مریم نواز شریف اور ان کے شوہرکو پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویڑن بینچ نے بری کر دیا ہے۔لہذا اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل کی منظور کرنے میں کوئی وقت نہیں لگے گا کیونکہ نیب مریم نواز اور ان کے شوہر محمد صفدر کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے ہی 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں ان کی سزاو¿ں کو معطل کر دیا تھا۔ اسی طرح جب نواز شریف نومبر 2019 میں علاج کے لیے بیرون ملک گئے تو العزیزیہ کیس میں ان کی سزا کے خلاف اپیل پر 60 فیصد کارروائی پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی۔اس لیے نواز شریف انتخابات کے وقت تک خود کو درپیش تمام قانونی چیلنجز سے آزاد ہو جائیں گے کیونکہ اِن کارروائیوں میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ان قانونی چیلنجوں کے باوجود نواز شریف کو مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کرکے اپنے کارکنوں کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ قوت حاصل کر چکے ہیں۔میاں نوازشریف کے لیے ڈیل کے تاثر کو زائل کر نا بھی ایک اہم چلینج ہو گا میاں صاحب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مزاحمت کا موقف چھوڑ کر اگر مفاہمت کی طرف جاتے ہیں تو اس کا مرکزی نقطہ کیا ہے یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا۔ نواز شریف کا انحصار اپنی پارٹی کے امیدواروں پر ہے کہ وہ ان کے استقبال کے لیے بندے لے کر آئیں۔ انھیں عوام پر اعتماد نہیں کہ وہ خود بہ خود استقبال کے لیے آ جائیں گے۔مسلم لیگ ن کی ساری تیاری میاں نواز شریف کی آمد کے حوالے سے دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ پنجاب میں جو سیاسی مقابلہ ہے وہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے مابین ہو گا۔ تاہم یہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی پوزیشن اور حیثیت پر منحصر ہے۔ ن لیگ نے جس طرح گذشتہ ڈیڑھ سالوں میں اپنی مقبولیت کھوئی ہے، اس کو دوبارہ حاصل کرنا جتنا ناگزیر ہے اتنا ہی مشکل۔معاشی چیلنجز سے بھرپور شہباز شریف کے مختصر دور حکومت کے بعد میاں نواز شریف کی واپسی، پی ایم ایل این کی سیاسی بقا سے مشروط ہو چکی ہے۔ تمام مقامی قیادت میاں نوازشریف کے استقبال کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لانے کی سعی کر رہی ہے۔ نواز شریف کی واپسی کو جس امید سے جوڑا جا رہا ہے، وہ امید اگر ثمر بار ہوتی ہے تو پارٹی پنجاب میں کھوئے اعتماد کو بحال کر سکتی ہے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کے دنوں میں پیپلز پارٹی متحرک دکھائی دی۔ مگر موجودہ لمحات میں اِن کی دوسرے درجہ کی قیادت میاں نواز شریف کی واپسی کو، بیانات کی حد تک، طنزیہ پیرائے میں دیکھ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی پوزیشن اس وقت تک بہتر ہوسکتی ہے جب تک پی ٹی آئی زیرِ عتاب رہے گی اور خوف کی فضا طاری رہے گی۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ عمران خان کی پارٹی کے ہزاروں لوگ، جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں، وہ سیاسی عمل اور انتخابات میں حصہ لیں گے۔پنجاب میں سیاسی ہلچل عمران خان اور ان کی جماعت کی وجہ سے تھی مگر وہ اس وقت خود اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ان کے ساتھی جماعت چھوڑ چکے، چھوڑ رہے ہیں یا پھر غائب اور خاموش ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی بظاہر میٹنگز اور پوسٹروں سے آگے تحریک پیدا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ملک کی سب سے نمایاں جماعت، پاکستان تحریک انصاف، بہت زیادہ دبا و¿کا شکار ہے۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ خود بی بی سی ہارڈ ٹاک کو دیے انٹرویو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو، تمام دستیاب قانونی چارہ جوئی کو بروئے کار لائے جانے کے بعد، عدالتوں کی جانب سے قانونی طور پر انتخابات سے روکا جاتا ہے تو یہ معاملہ نگراں حکومت کے اختیار میں نہیں ہو گا۔دوسری جانب نگران حکومت کے پاکستان تحریک انصاف سے رابطوں کی خبریں بھی گرم ہیں اگرچہ وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے ان خبروں کی تردید کی ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے ایسی کوئی اہم ملاقات ہوئی ہے۔
نوازشریف کی وطن واپسی:شکوک وشبہات ختم چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔
Oct 19, 2023