نوجوان قیادت کا فقدان ، ملک بھنور سے کیسے نکلے گا 

Oct 19, 2023

امیر محمد خان

امیر محمد خان

کسی بھی جنگ میں مددگار آج کی دنیا میں ہتھیار لیکر محاذ پر جانے سے بہتر میڈیا پروپیگنڈہ ہے ، جس دشمن کے حوصلوں کو پسپا کرتا ہے جس پر نہ ہی ہمارا میڈیا ( الیکٹرانک) اور نہ ہی یو ٹیوب ، ٹویٹر،و دیگر سوشل میڈیا کے ماہرین خاص طور پر آجکل فلسطینی مسلمانوں کی کوئی مدد کررپارہے ہیں پرائیوٹ چینلز کو چھوڑیں وہ انکا نظریہ تو اشتہارات سے اپنی دولت میں اضافہ کرنا ہے ہمار ا سرکاری میڈیاپاکستان ٹیلی ویثر ن میں جو اکھاڑ پچھاڑ مچی ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ نگران الیکشن کمیشن کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس ادارے میں جو تبادلے ، اور نئے لوگوں کو اس معاشی خستہ حالی کے دور میں ملازم رکھ رہے ہیں اور بھاری تنخواہیں دے رہے ہیں، جونیر لوگ جنکی وجہ شہرت سے میڈیا سے وابسطہ سینئر لوگ واقف ہیں، ایسے افراد جو سابقہ پی ٹی آئی حکومت میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھے گئے اور سابقہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے شہزاد اکبر کی سفارش پر اپنے بیانیوں کی تقویت دینے کیلئے بھرتی ہوئے نگر اں انہیں فارغ کرنے کے بجائے مزید ترقیاں دیکر انہیں اس سرکاری ادارے میں سیاہ سفید کا مالک بنارہے ہیں ایسے افراد کی حیثیت گاڑی کے اس اضافی ٹائر کی ہے جو ہر جگہ ”فٹ “ہوجاتے ہیں مگر یہ وقتی ہوتے ہیں توقع تو تھی نگران وزیر اطلاعات سے کہ انکا میڈیا کا ایک طویل تجربہ ہے وہ اس ادارے کو مزید مضبوط بنائینگے جس نے گزشتہ سالوں میں بے پناہ ترقی کی ہے اور پاکستان ٹیلی ویثرن کے مختلف چینلز کو گھروں میں دیکھنے کے قابل بنایا تھا اسے مزید اچھائی کی طرف لے جائینگے چونکہ بہ حیثیت نگران انکی کوئی مستقبل کی خواہشات نہیں ہونگی ، بہرحال بات ہورہی تھی کہ اسوقت ہمارا میڈیا یا سوشل میڈیا خاص طور پر پی ٹی آئی کے ملک سے باہر بیٹھے وہ لوگ جو اسوقت پوشیدہ رہ کر سوشل میڈیا پر بیٹھے خان کو فرشتہ ثابت کرنے درپے ہیں اگر وہ پاکستان اور خاص طور مسلم کاز سے واقف ہیں تو فلسطینیوں کی مدد میں کھڑے ہوجائیں چونکہ خان کو فرشتہ ثابت کرنے ، پاکستانی کی مسلح افواج کے خلاف تو انہوں نے زہر افشانی کی ہے اور پاکستانیوں کے ذہن میں منفی عنصر بھرنے کی کوشش کی ہے اسکا اثر تو پاکستان میں ہے چونکہ ہر شخص موبائل فون کا حامل ہے۔ انکی کوششوں سے پاکستان دنیا میں بدنام کیا اب کچھ اچھا کام کرکے اپنی عاقبت سنبھال لیں، نہ جانے وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ 9 مئی کا دردناک واقع کوئی معمولی واقع تھا جس نے محب وطن لوگوں کا ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے محرک بقول پی ٹی آئی کے ہمدردوں کے بقول فرشتہ صفت خان تھے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے بچے کچے رہنماوں کی حیثیت وہی ہے جو لندن والے بھیا کی ایک متنازعہ تقریر کے بعد ایم کیو ایم سے علیحدہ ہونے والوں کی ہے وہ الطاف حسین کی سوچ میں تو شامل تھے مگر جب عوام کی نفر ت سامنے آئی تو انہوں نے ایم کیوایم سے علیحدگی کرلی اور اپنے آپ کو فرشتہ ثابت کرنے لگے ، بہر حال وزیر اعظم نے واضح الفاظ میں کہا ہے کسی بھی جماعت کو انتخابی عمل سے دور رکھنا انکی خواہش نہیں اور نہ ایسا ہوگا چونکہ کسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کا نتیجہ اس کے ووٹ بینک میں مایوسی اور ریاست مخالف جذبات ابھرنے کی شکل میں نکل سکتا ہے اور قومی اتحاد و یکجہتی کیلئے یہ کیفیت کس قدر مہلک ہوسکتی ہے، یہ بات محتاج وضاحت نہیں۔ تاہم ملک میں سیاسی استحکام کیلئے انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان اور اس کے مطابق اقدامات کا اب جلد از جلد آغاز ضروری ہے اسکے باوجود کہ ملک میں موجود حاضر اسٹاک میں کوئی جماعت یا رہنمائ عوام کے دکھ درد ، ملک کی معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کرنے والا نظر نہیں آتا نگراں حکومت نے معاشی بحالی اور امن وامان کے قیام کے ضمن میں اگرچہ مو ثر اقدامات کیے ہیں لیکن اس کا اصل کام بہرکیف انتخابات کرانا ہی ہے انتخابی عمل کو انتشار اور اشتعال انگیزی سے محفوظ رکھنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو ایک متفقہ ضابطہ اخلاق کے تحت پابند کیا جانا چاہیے کہ دوسروں پر بے بنیاد الزام تراشی اور سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے بجائے ہر جماعت اپنی سابقہ کارکردگی اور قابل عمل منشور کی بنیاد پر الیکشن لڑے اورانتخابی عمل کو ہر قسم کی بدامنی سے پاک رکھنے کو یقینی بنائے۔موجودہ حاضر اسٹاک جماعتیںاپنے ماضی کا کوئی خاطر خواہ بیانیہ دینے سے قاصر ہیں ، ایٹمی دھماکہ ہم نے کرایا ، بجلی کی لوڈشیڈنگ ہم نے ختم کی، ڈالر ہمارے دور میں سستا تھا ،مہنگائی کم تھی وغیرہ وغیرہ پرانے اور گھسے پٹے نعرے ہیںآج کی صورتحال کچھ اور ہے پاکستانی معیشت قرضوںکے بے پناہ وزن میں دھنسی ہوئی دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے کوئی جماعت بھی ہو اسکے اندر نوجوان قیادت کو آگے نہ آنے دیا جاتا ہے نہ خاندانوں سے باہر نکلنے کی کوشش ہوتی ہے ، جو خواہش پی پی پی کی ہے بلاول کو وزیر اعظم دیکھنے کی مگر فرض کریں ایسا ہو بھی گیا جو ممکن نہیں چونکہ سندھ کی ترقی سب کے سامنے ہے وہاں طویل عرصہ حکومت کے بعد کون سی دودھ کی ندیاں بہہ رہی ہیں؟باقی لیڈرشپ پی پی پی میں ساٹھ سال عمر کے دائرے میں ہے یہ ہی حال مسلم لیگ ن کا ہے ، تین بار وزیر اعظم رہنے والے 73 سالہ، شہباز شریف 72 سال ، خواجہ آصف 74سال ، رانا ثناءاللہ 68 سال ، احسن اقبال 64سال ، ادھر پی ٹی آئی میں عمران خان 71 سال ، اللہ ان سب کی عمریں دراز کرے اور صحت دے مگر ہم کیوں نہ خاندانوں سے باہر نکل سکے ؟محترمہ مریم نواز ہیں مگر انکی ٹیم یا چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے خواہش مند میاں نواز شریف کے ہمراہ ٹیم وہی ہوگانہ جس نے حال میں 16ماہ کی کارکردگی ماسوائے IMFکا قرض بحال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔میا ں شریف کو انکی آمد کے سلسلے میں جس بھر پور حمائت کا تاثر ہے اللہ کرے وہ صحیح ہے۔ مگر اب زمانہ پرنٹ میڈیا کا نہیںجہاں اشتہارات سے اخبارات کا پیٹ بھر دیاجائے اور کوئی مخالف خبر کی شائع ہونے کی گنجائش نہ ہو ، الیکٹرانک میڈیا تقسیم ہے ، مالکان کاروباری افراد ہیں جنکا صحافت سے دور کا تعلق ہے اپنے میڈیا ہاﺅسز کے ذریعے اپنے کاربار کا تحفظ اولین ترجیح ہے مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا نہ ہونے کے برابر ہے میاں صاحب نے ہر چند سپریم کورٹ سے معزولی کے بعد یہ کہا تھا کہ وہ نظریاتی ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن 1985ءسے اب تک کے ماہ و سال ہمیشہ یہ سرگوشی کرتے ہیں کہ میاں صاحب کو سمجھنے کے لیے نظریات جاننے کی زحمت نہیں کرنی چاہئے میاں صاحب کے مزاج کے تناظر میں کسی نہ کسی چیف سے تکرار میں یہ مدّت درمیان میں ختم ہوسکتی ہے۔ یہ عادتیں بدلنے کی عمر ہے نہ ہی کچھ ایسا بتایا جارہا ہے کہ اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی مشق کی گئی ہے اپنی آمد سے قبل انہوں نے ”کھڑاک “ کرانے والے بیان بھی دیا تھا جسے اس طرح واپس لیا گیا کہ ہم نے سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا ہے اسی طرح محترمہ مریم نواز کی شعلہ بیانی میں انکے الفاظوں کو روکنا مشکل نظر آتا ہے جو پھر بھیج سکتا ہے۔ کہتے ہیں اصل حکومت 49سالہ مریم نواز صاحبہ کی ہوگی۔ عمر رسیدہ قیادت کے برعکس ایک جواں سال۔ جواں عزم لیڈر شپ زیادہ تیزی سے فیصلے کرسکے گی۔پاکستان کے عوام تماشبین کی حیثیت رکھتے ہیں چونکہ قانوں الیکشن کرانے کا پابند ہے لوگوں کو سہولیات پہنچوانے کا پابند نہیں۔ 1996-1990- 1988- 1985ءکی نسبت 2023 ءکا آخر:2024ءکا آغاز بہت مختلف ہوگا۔کوئی ایک شخص عقل کل نہیں ہوتا۔ ہر ملک اب ایک عالمی نیٹ ورک کا حصّہ ہے۔ الگ تھلگ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ہر پاکستانی کی خواہش ہے اور دل سے د±عا ہے کہ پاکستان کی عظمت رفتہ واپس ہو۔

مزیدخبریں