ہمارا موجودہ ٹیکسیشن نظام اور معیشت کی بحالی
تحریر: لیاقت بلوچ
نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلنا جارجیوا نے نگراں وزیرا عظم انوارالحق کاکڑ سے چند روز قبل امریکہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد دیے گئے بیان میں پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ امیر طبقات پر ٹیکس عائد کرے جبکہ غریبوں کی حفاظت کرے۔ دوسری طرف عالمی بنک نے گزشتہ روز”معیشت کو بہتر بنانے“ کے لیے پاکستان کو دیے گئے تازہ مشوروں اورہدایات میں 50 ہزار سے کم ماہانہ آمدن والے تنخواہ دارطبقے پر بھی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عالمی ساہوکار اداروں کی دوغلی پالیسیاں غریب ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑے رکھنے کی عالمی سرمایہ دارانہ ذہنیت کی عکاس اور غریب ممالک کو مزید غربت میں دھکیلنے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔
پاکستان اِس وقت آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام سے منسلک ہے جس کے تحت رواں برس جولائی میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط ملی تھی جبکہ دوسری قسط نومبر 2023 میں ملنے کی توقع ہے۔نومبر میں اِس قرض کی اگلی قسط کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کا ایک وفد رواں ماہ (اکتوبر) کے آخر میں اس بات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد کر رہا ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ دوسری شرائط کے علاوہ ملک میں ٹیکس وصولی بڑھانے کی بھی ایک شرط ہے تاکہ اس کے ذریعے ا±ن سے لیے گئے قرضوں اورسود کی ادائیگی یقینی بنائی جاسکے۔اس مقصد کے لیے مختلف شعبوں اور طبقات پر ٹیکس لگانے کی بات کی گئی ہے تاہم حکومت امراءاور اشرافیہ پر براہِ راست ٹیکس لگانے کی بجائے اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کے ذریعے غریب عوام کا خون نچوڑنے پرتلی ہوئی ہے۔ٹیکس وصولی کے اس ظالمانہ نظام کے تحت غریبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کے باعث ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو امیر غریب کا فرق رکھے بغیر تمام صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں۔ امیروں پر تو اس کا کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن کم آمدن کے باعث غریب اور متوسط طبقہ مسلسل اس کی زد میں ہے اور شدید متاثر ہے۔
پاکستان میں صوبائی سطح پر ٹیکسیشن کا علیحدہ نظام رائج ہے تاہم قومی سطح پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) ہی ٹیکس اکٹھا کرنے کا واحد ادارہ ہے۔ قومی سطح پر انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کے ذریعے ٹیکس رقم یا محصولات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوئی اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 7169 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا۔ موجودہ ٹیکسیشن نظام میں 70 فیصد حصہ اِن ڈائریکٹ ٹیکس کا ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا حصہ صرف 30 فیصد ہے۔
اس وقت ملک کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ ہے جبکہ ٹیکس فائلرز کی تعداد محض 45 لاکھ ہے جس کے بعد عام افراد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہ 45 لاکھ لوگ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ مگر ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اِس وقت ہر شہری ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی صورت میں ٹیکس دے رہا ہے، جوکہ کل جمع شدہ محصولات کا 70 فیصد ہے۔ ہر وہ شخص (خواہ امیر ہو یا غریب) جو موبائل فون استعمال کر رہا ہے یا دکان پر جا کر کچھ خرید رہا ہے، وہ سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادائیگی کر رہا ہے۔
جہاں تک آمدن پر ٹیکس وصولی کی کم شرح کا تعلق ہے تو اس کی بڑی وجوہات حکومتی سطح پر بے تحاشا غیرضروری اور غیرترقیاتی اخراجات؛ سرکاری اداروں میں بے پناہ کرپشن، لوٹ مار اور وسائل کا ضیاع، آمدن و خرچ کے ناقص اور کرپٹ سرکاری نظام کے باعث ٹیکس نظام پر عوام کا عدم اعتماد، ٹیکسیشن نظام کی پیچیدگیاں ؛ غریب اور متوسط طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار اورا±مراءو اشرافیہ سے ٹیکس وصولی میں ناکامی شامل ہیں۔
اس غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ ٹیکسیشن نظام کے نتیجے میں وطنِ عزیز کا غریب اور متوسط طبقہ غریب سے غریب تر جبکہ شاہانہ زندگی گزارنے والا امیر طبقہ امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس بِلاتفریق ہر صارف سے لیا جاتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں، تاہم غریبوں کی محدودآمدنی کی وجہ سے ا±ن پر اِن ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیر طبقات کی زیادہ آمدنی کی وجہ سے ا±ن پر اس طرح بوجھ نہیں پڑتا ہے جس طرح ایک غریب صارف پر پڑتا ہے۔ ایک طرف امیر طبقات آمدن میں اضافے کے باوجود ٹیکس دینے سے گریزاں ہیں تو دوسری طرف ٹیکسیشن کا موجودہ ناقص نظام کم آمدنی والے طبقات کو مسلسل ٹارگٹ کررہا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک کنٹریکٹر یا ایک برآمد کنندہ یا درآمد کنندہ پر جب ایڈوانس ٹیکس لگتا ہے تو وہ اسے اپنے منافع سے نکالنے کے بجائے عام صارف کو منتقل کر دیتا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ امیروں پر لاگو ہونے والے ڈائریکٹ ٹیکسوں کا نفاذ زیادہ ہو اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کم ہو۔ لیکن بدقسمتی سے جو ٹیکس قوانین اس وقت موجود ہیں ا±ن میں بھی اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں پر زیادہ زور ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس اس شرح سے اکٹھے نہیں ہو رہے جتنا ان کا ملک میں پوٹینشل ہے، لہٰذا اِن قوانین میں تبدیلی یا نئے قوانین کے نفاذ سے ہی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں مختلف شعبوں کی جانب سے ٹیکس جمع کرانے کی صورتحال کو دیکھا جائے تو ملک میں معیشت کے مختلف شعبوں کی جانب سے ٹیکس جمع کرانے کی شرح مختلف ہے۔ جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کا حصہ 20 فیصد ہے تاہم اس کا ٹیکس میں حصہ 28 فیصد ہے، زراعت کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 28 فیصد جبکہ اس شعبے کی طرف سے جمع کروائے جانے والے ٹیکس کی شرح بمشکل ایک فیصد ہے۔ اسی طرح ملک میں ہول سیل اور ریٹیل شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 19 فیصد ہے تاہم اس شعبے سے اکٹھے ہونے والے ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
زرعی شعبے کاایک فرد جس کی سالانہ آمدن ڈھائی کروڑروپے تک ہے وہ تو فقط چند ہزار روپے ٹیکس ادا کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب ایک صنعتی ادارے کا فرد جس کی سالانہ آمدن کم و بیش اتنی ہے اسے 40 لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔
پی پی پی، ن لیگ، مشرف اور پی ٹی آئی سمیت گزشتہ حکومتوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت ترین شرائط پر قرضوں کے معاہدے کرکے عوام پر مہنگائی، بے روزگاری کا نہ ختم ہونے والا عذاب مسلط کردیا ہے۔ اِن س±ودی قرضوں کی ادائیگی کے لیے پٹرول، بجلی، گیس بموں کی بارش گزشتہ حکومتوں نے بھی جاری رکھی اور موجودہ نگران حکومت تو ا±ن سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر یہ ظلم کررہی ہے۔ ہر پارٹی نے اقتدار میں آکر ملک و قوم کو قرضوں اور س±ود سے نجات دِلانے کی بجائے قومی بنکوں سے بھاری قرضے حاصل کیے اور اقتدار میں آکر معاف کرائے۔ اس مقصد کے لیے نیب قوانین میں ترامیم کی گئیں۔قرضوں اور سود کی بنیاد پر چلنے والی معیشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے بجٹ کا 30 فیصد سے زائد قرضوں اور س±ود کی بھٹی میں جھونک دینے پر مجبور ہیں۔ اس گرداب سے نکلنے کا واحد راستہ اسلامی نظامِ معیشت کا قیام ہے۔ وفاقی شرعی عدالت پہلے ہی معیشت اور بنکاری نظام کو سود سے پاک کرنے کے حوالے سے تاریخ ساز فیصلہ دے چکی ہے اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ 2027ئ تک ہر حال میں ملکی معیشت کو سود سے مکمل پاک کرکے اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک میں اللہ اور ا±س کے رسول? سے جنگ جیسے گھناو¿نے فعل سے توبہ تائب ہوجائے۔
1994 میں بے نظیر دورِ حکومت میں بجلی تقسیم کار کمپنیوں یا آئی پی پیز کے ساتھ بجلی خریداری کے معاہدے کیے گئے۔ 88 کمپنیوں ،جن میں سے بیشتر کے مالکان پاکستانی ہیں اورا±ن کا تعلق حکمران پارٹیوں سے ہے، کو مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے اور اضافی پیداوار کی مد میں اب تک ساڑھے آٹھ ٹریلین روپے، ڈالر ریٹ کے مطابق ادا کیے جا چکے ہیں۔ ڈالر ریٹ بڑھنے سے اب یہ ادائیگیاں گردشی قرضوں کی شکل میں 2200 ارب روپے تک واجب الادا ہیں۔ دوسری طرف نیپرا ہر ماہ آئی ایم ایف شرائط کے تحت بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیے جارہا ہے، جس سے فی یونٹ قیمت 65روپے تک جاپہنچی ہے اور یہ سلسلہ تاحال رکا نہیں ہے۔ اس ظالمانہ اضافے کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا، جماعتِ اسلامی نے 02 ستمبر کو کامیاب ملک گیر شٹر ڈاو¿ن ہڑتال کی آزاد کشمیر میں عوام نے سول نافرمانی تحریک شروع کردی، خود وزیراعظم آزاد کشمیر نے یہ ظالمانہ بھاری بھرکم بل ادا نہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت اور مہنگائی کی مجموعی صورت حال جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ ملک میں پن بجلی اور سولر سے لاکھوں میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی تھی اور اب بھی ایسا ممکن ہے، لیکن 1994ءمیں تھرمل آئی پی پیز کے ساتھ مہنگی بجلی کے معاہدے ہوئے۔ مقامی کوئلہ وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود درآمد ی کوئلے سے چلنے والے یہ بجلی گھر ساحل سمندر سے سیکڑوں میل دور لگائے گئے، مقصد صرف اور صرف سیاسی مفادات کا حصول اور مافیاز کو نوازنا تھا۔ اب اِن ظالمانہ معاہدوں کے ذمہ داران اور ناجائز فائدہ ا±ٹھانے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا جبکہ حکومت اب تک غریب عوام کی جیبوں پر بجلی چوری، لائن لاسز اورسرکاری اشرافیہ کے مفت استعمال کی مد میں 1200ارب سے زائد کے اخراجات ڈال چکی ہے۔ بجلی بلوں میں 15اقسام کے ٹیکسز شامل ہیں۔ حکومت آئی پی پیز کو کرایہ یا ان کی پیداواری صلاحیت کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ ان سے لی جانے والی بجلی کی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ یہ ساری ادائیگیاں ماہانہ بنیادوں پر ڈالر میں کی جاتی ہیں۔ یہ پلانٹس کل 27 ہزار 7سو 71 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس میں سے مہنگی تھرمل بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 21 ہزار ایک سو 21 میگا واٹ ہے۔ سابقہ حکومتوں نے پانی، کوئلے، ونڈ اور سولر انرجی کے سستے منصوبوں پر بروقت کام کرنے کی بجائے آئی پی پیز کے ساتھ مل کر ظالمانہ معاہدے کیے اور مہنگی بجلی کے پلانٹ لگوائے، جس کا خمیازہ آج عوام ناقابلِ برداشت بجلی بلوں کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 589 ارب روپے لائن لاسز یا بجلی چوری کی نذر ہوتے ہیں، جبکہ بجلی چوری کے خلاف حالیہ کریک ڈاو¿ن کے نتیجے میں ہونے والی ریکوری 8 ارب روپے کے لگ بھگ ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وصول کردہ رقم کل چوری کا 1 فیصد سے کچھ زائد ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ 99 فیصد چور کب اور کیسے پکڑے جائیں گے؟ اس کا سادہ سا اور مختصر جواب یہی ہے کہ کبھی نہیں، کیونکہ بجلی چوروں کو پکڑنے والے خود بجلی چوری کے سہولت کار اور مفت بجلی استعمال کرنے والے واپڈا ملازمین ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بجلی کے بڑے بڑے نادہندگان سرکاری اور نجی ادارے ان کی پکڑ سے تاحال باہر ہیں۔ ایسے میں 589 ارب روپے کی ریکوری دیوانے کا خواب ہی رہے گی۔
مذکورہ بالا خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ٹیکسیشن نظام میں انقلابی اصلاحات کے ساتھ ساتھ حسبِ ذیل چند فوری نوعیت کے اقدامات کے ذریعے بہتری لائی جا سکتی ہے۔
ٹیکسیشن کا سادہ اور آسان نظام وضع کیا جائے جو امیر طبقات پر ٹیکس کے بوجھ کو منتقل کرنے اور غریب طبقات کو ریلیف دینے پر مبنی ہو۔ اس سے 95 فیصد ملکی آبادی کو ریلیف اور روزگار کے مواقع میسر ہونگے، کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور یوں معاشی سرگرمی میں اضافہ سے ملکی معیشت مضبوط اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا۔
ٹیکس نیٹ سے باہر شعبوں کوفی الفور ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سیاسی اور دیگر ہر قسم کے دباو¿ سے بالاتر ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بجلی بِلوں کے ذریعے عوام الناس سے درجن بھر سے زائد ٹیکسز کی وصولی اور آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ناجائز، غیرمنصفانہ اضافہ پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری کے کوہِ گراں تلے دبے عوام کو زندہ درگور کررہی ہے۔ واپڈا سے 3 روپے 51 پیسے فی یونٹ پن بجلی خرید کر عوام کو 25 تا 65 روپے میں فروخت کرنا بدترین ظلم اور ریاستی استحصال ہے۔ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا یہ سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے اور ا±مراءاور اشرافیہ پر ٹیکس عائد کرکے اخراجات پورے کرنے چاہئیں۔ نیز درآمدی ایندھن سے چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس چلانے کی بجائے عرصہ دراز سے زیر التواءپن بجلی منصوبوں بھاشا ڈیم، داسو ڈیم اور مہمند ڈیم جیسے منصوبوں کو بلاتاخیر مکمل کرکے عوام کو سستی بجلی فراہم کی جائے۔
مہنگی بجلی کی ایک بنیادی وجہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کیساتھ کئے گئے معاہدوں کی ظالمانہ اور غیرمنطقی شرائط ہیں۔ اِن معاہدوں کے تحت کیپیسٹی چارجز کے نام پر اِن کمپنیوں کو واجب الادا گردشی قرضے 2200 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں اور بجلی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافہ اور عوام سے ریکارڈ وصولیوں کے باوجود یہ گردشی قرضہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ لہٰذا اِن معاہدوں پر بلاتاخیر اس طرح نظرثانی کی جائے کہ کیپیسٹی چارجز جیسے ظالمانہ وصولیاں ختم ہوں یا نہ ہونے کے برابر ہوں۔ جبکہ ان معاہدوں کوختم ہونے کے بعد دوبارہ نہ کیے جاتے بلکہ واپڈا کے ذریعے بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کا سابقہ نظام بحال کرکے درآمدی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھروں پر انحصار کم سے کم کیا جائے۔
بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے ، برادر ممالک کو پاکستان کے اندر سرمایہ کی طرف راغب کرنے کے لیے مناسب اور ضروری سہولیات فراہم کرنے کیساتھ ساتھ بیوروکریسی کی سطح پر ایسے انقلابی اقدامات اور اصلاحات کی ضرورت ہے جن سے سرکاری اداروں میں کرپشن اور کام میں غیرضروری تاخیری حربوں، ر±کاوٹوں کا خاتمہ ہو اور غیرملکی سرمایہ کار مکمل یکسوئی اور اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کرسکیں۔
سی پیک کے تحت چلنے والے پراجیکٹس میں حائل تمام رکاوٹوں کا خاتمہ اور اِن منصوبوں پر کام کرنے والے چائنیز کمپنیوں کے جائز تحفظات دور کیے جائیں۔
غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ اور سی پیک منصوبوں پر جاری کام کی رفتار تیز کرنے کیساتھ ساتھ صنعتی اور زرعی شعبے میں (incentives) رغبت کے ذریعے صنعتی اور زرعی برآمدات کو فروغ دیا جاسکتا ہے، جس سے ایک طرف ملکی ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا تو دوسری طرف ملکی ضروریات پوری ہونے سے صنعتی و زرعی درآمدات پر ا±ٹھنے والے بھاری زرِمبادلہ کی بچت ہوگی۔
ملک کے تین بڑے ستونوں: مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اقتدار اور اختیارات کی رسہ کشی نے نہ صرف عام آدمی کو شدید متاثر کیا ہے بلکہ ملک کو شدید ترین سیاسی ، معاشی اور داخلی عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے۔ جس کا نتیجہ قومی قیادت کی تقسیم اور سیاسی، معاشی، انتظامی بحرانوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ آئین میں ہر ادارے کے فرائض اور اختیارات واضح ہیں لہٰذا ایک دوسرے کو نیچا دِکھانے اور بے مقصد سیاسی مقدمہ بازیوں میں ملک و قوم کو ا±لجھانے کی بجائے ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے تاکہ غیر ضروری کاموں پر وقت ضائع ہونےکی بجائے توجہ ملکی تعمیر و ترقی کی طرف منتقل ہو۔
آئین و قانون کی حکمرانی سے ہی امن و استحکام کا حصول ممکن ہے۔ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ہر ادارے اور طبقے کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ نبھانا ہوں گی۔ قانون کا بِلاامتیاز نفاذ اور ہر خاص و عام تک انصاف کی فوری رسائی یقینی بنانے میں ہی ملک و قوم کی بھلائی اور تعمیر و ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔
سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے حکومتیں لانے،بنانے اور گِرانے کا عمل اب ختم ہونا چاہیے۔ انتخابی عمل میں ہر قسم کی مداخلت کا خاتمہ اور اقتدار عوام کے اصل نمائندوں تک منتقلی کے لیے شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے سے ہی عوام کا ریاستی نظام پر اعتماد بحال ہوسکے گا۔