چوکس
ناصر آغا
”ایوان اقبال سے براہ راست“
بھوک افلاس اور مہنگائی کے جن نے لبوں سے مسکراہٹیں اور چہروں کی طمانیت چھین لی ہے بجلی کے بلوں تیل کی قیمتوں نے رہے سہے ہاسے بھی چھین کر عوام کا بھرگس نکال دیا ہے۔
ٹیڈنہ پیاں روٹیاں
تے سبھے گلاں کھوٹیاں
فیض نے تو پہلے وقتوں میں یہ کہہ دیا تھا کہ
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
الغنی غنی لنفس(حدیث)
امیر وہ ہے جس کا دل غنی(امیر) ہے۔(ترجمہ)
طمانیت قلب اور نفس کی آسودگی مال و زر سے نہیں ذکر الٰہی اللہ اور اس کے رسول سے قلبی لگاﺅ سے حاصل ہوتا ہے۔ ان حقائق کا مشاہدہ آج جب چوپالوں اور ہالوں(ہالز) کی رونقیں مہنگائی نے چھین لی ہیں۔”چوکس پاکستان“ کے زیر اہتمام جسٹس میاں نذیر اختر کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں شرکت سے ہوا جو ایوانِ اقبال کے خوبصورت ہال میں ہوئی۔ تقریب کی خصوصیت انفرادیت بلکہ تاریخی حیثیت تھی کہ اتنی بڑی تعداد میں اہلِ علم و دانش کا اجتماع کہ شائد ہی دیکھنے کو ملے۔ مقررین اور مہمانان خصوصی تو ملک کی نامور مقتدر شخصیات تھیں۔ سامعین کا جم غفیر بھی وکلاءعلمائ، اساتذہ، صحافی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی پر مبنی ہستیوں سے نہ جانے کہا کہاں سے لاہور ہی نہیں پاکستان کے دیگر شہروں بلکہ بیرون ملک سے شریک تھے۔ انہوں نے ہستیوں کے چہروں گفتار اور کردار میں سکون قلب واضح جھلک رہا تھا۔ ماحول سے بے چینی و اضطراب نہ جانے کیسے غائب تھا گویا یہ لوگ موجودہ بحران زدہ ملک کے شہری نہ ہوں۔
تقریب کی صدارت معروف شاعر دانشور کہنہ مشق استاد ڈاکٹر ریاض مجید نے کی انہوں نے ملکی تعلیمی پسماندگی جس کا تذکرہ چیئرمین چوکس پاکستان اور معروف کالم نگار ناصر آغا نے چھیڑا تھا کو موضوع سخن بناتے ہوئے اس پر بھرپور اور مفید آراءسے نوازا۔ خصوصاً اپنی زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ مقررین و شرکاءمیں ملک محبوب الرسول قادری، ڈاکٹر جعفر حسن مبارک، حسن عباسی، فاروق عزمی، نسیم سحر، چودھری غضنفر علی ملہی، کرنل جمیل، سلمان رسول، اعجاز گیلانی اور ررومیصہ ایمان شامل تھے۔ جبکہ نقابت کے فرائض پروفیسر شرجیل کامران نے ادا کیے۔
چوکس کی طرف سے عبدالعزیز پاشا نے اپنے ہاتھ سے تیار کی گئی خصوصی اسلامی پینٹنگ جسٹس میاں نذیر اختر صاحب کو پیش کی۔ جبکہ میاں نذیر اختر صاحب نے کھلے دل سے اپنی شائع شدہ کتابیں مہمانوں اور دیگر شرکاءمیں تقسیم کیں۔
کثیر تعداد میں طلباءو طالبات کی شرکت سے نئی نسل کا علمی و ادبی رحجان دیکھ کر دل کو خوشی نصیب ہوئی کہ آج جب لوگ نسل نو کاگلہ کرتے ہیں کہ وہ ہر وقت موبائل تھامے رہتے ہیں نوجوانوں کی ایسی تعداد بھی موجود ہے جو ہمارے بہتر مستقبل کی نشاندہی کر رہی ہے۔