ظفر محسود
انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر پاکستان کی داخلی سلامتی کے لئے شدید خطرہ ہیں۔ اگرچہ حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سخت اور نرم دونوں طرح کے اقدامات کرر ہی ہے تاہم دہشت گردی کی مالی معاونت سمیت ملکی سلامتی کو لاحق دیگر مسائل کو روکنے کی کوششوں کے باوجود اب بھی داعش اور ٹی ٹی پی جیسے بین الاقوامی دہشت گرد گروپس ہمارے لئے خطرات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ بالخصوص پاکستان کی سرحدوں کے حا لات انتہائی خراب دور سے گزر رہے ہیں۔بنیاد پرستی روایتی مدارس سے نکل کر اب دنیاوی علوم کے تعلیمی اداروں میں پھیل چکی ہے، جس سے شہری اور دیہی دونوں طرح کے علاقوں میں دہشت گردی تشویشناک صورت حال اختیار کرچکی ہے۔ اگرچہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان، فوجی آپریشنز، اور انسداد دہشت گردی سے متعلق قانون سازی جیسے اہم اقدامات کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پانے میں کسی حد تک نمایاں پیش رفت کی ہے لیکن یہ چیلنجز بدستور برقرار ہیں۔ جن میں منشیات کی اسمگلنگ، اغواء، بینکوں میں ڈاکے، منی لانڈرنگ اور بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز شامل ہیں اور ان جرائم میں منظم پیشہ ورگروہ ملوث پائے جاتے ہیں۔
پاکستان خطے میں اپنے جغرافیائی و سیاسی حدود اربع اور بین الاقوامی مفادات کی وجہ سے ہائی رسک پر ہے ۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اگرچہ کئی دہائیوں سے بیرونی اور اندرونی خطرات سے نمٹنے میں پوری طرح سرگرم عمل ہیں، لیکن اس کشمکش نے قومی بجٹ پر مالی بوجھ میں اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے دیگر ضروریات کی مد میں صرف ہونے والا فنڈ بھی سیکیورٹی کے امور پر خرچ کرنا مجبوری بن چکا ہے۔ہائی پروفائل افراد، نجی تنظیموں اور بینکوں کے لیے سیکیورٹی کی طلب میں روز بروزاضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے، پاکستان میں بہت سے کاروبار اب بھی دستی طور پر نقد رقوم کی منتقلی پر انحصار کرتے ہیں۔ بینکوں اور اے ٹی ایم کے درمیان اور بڑے کاروباری اداروں کے اندر رقم کی محفوظ منتقلی کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک کے عوام اور ان کی املاک کو تحفظ دیناریاست کا بنیادی فریضہ ہے۔ جو سرکاری خزانے میں فنڈز کی قلت کے سبب اس اہم خدمت کو نظر انداز کرنے پر مجبورہے۔جس کے نتیجے میں نجی سیکیورٹی فراہم کرنے والے ادارے اس خلا ء کو پر کرنے کے لیے میدان میں آرہے ہیں۔ جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 400 سے زائد ادارے ہیں ، جو نجی طور پر سیکیورٹی کی خدمات فراہم کرنے پر مامور ہیں۔
ویسے تو پاکستان میں سیکیورٹی کمپنیوں کے قیام کے لیے ریاستی پالیسی اور مخصوص طریقہ کار موجود ہے، لیکن افرادی قوت کی خدمات ہوں یا نقد رقوم کی منتقلی کے آپریشنز، دونوں طرح کی سروسز میں بہت سے نقائص موجود ہیں،جنھیں نظر انداز کیا گیا ہے ،یہاں ان کی نشاندہی کی جاتی ہے کیونکہ سیکیورٹی کے معیار پر سمجھوتہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ گزشتہ سالوں کے دوران100 سے زائد سیکیورٹی کمپنیوں کے کیے گئے سروے کے نتائج کی روشنی زیر نظر مضمون میں مبنی بر حقیقت تصویر پیش کی جارہی ہے۔جوسیکیورٹی گارڈز کے حالات ، میڈیا اور بعض سیکیورٹی کمپنی کے پروفائلز میں پیش کیے جانے والے من گھڑت قصوںسے بالکل مختلف ہے ۔بعض سیکورٹی گارڈز توموثر تربیت یافتہ اور ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تیارہیں لیکن سیکیورٹی کی صنعت میں اکثریت ایسے محافظوں کی ہے جن کے پاس مناسب تربیت موجود ہے نہ ہی وہ اپنے فرائض منصبی کا خاطر خواہ تجربہ رکھتے ہیں ۔ کام، مقام اوراجرت کے اعتبارسے ان کا کردار وسیع پیمانے پر مختلف ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان اہم پہلوئوں پر نظرڈالیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بگڑتے ہوئے سیکیورٹی معیارات کو بہتر بنائیں۔اس کے لیے ہمیں سیکیورٹی گارڈزسے متعلق عوام میں پائی جانے والی کی غلط فہمیوں کی اصلاح کرنا ہوگی۔
کیا نجی محافظوں کے پاس لوگوں کو گرفتار کرنے کا اختیار موجودہے؟
پاکستان میں ترقی یافتہ دنیا کے بعض ممالک کے برعکس سیکیورٹی گارڈزکو جرائم میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے یا حراست میں رکھنے کا کائی قانونی اختیار نہیں ہے کیونکہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کادرجہ نہیں دیاجاتا ہے اور انہیں اس سلسلے میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد پرتکیہ کرنا پڑا ہے۔ مجرمانہ سرگرمیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اس اختیار سے محرومی ان کے کام کوموثر انداز میں پایہ تکمیل پہنچانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پوری تندہی سے مجرمانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے قابل نہیں ہیں ، جس کے باعث ان پر انحصار کرنے والے عوام کا تحفظ اور سلامتی خطرے میں پڑجاتے ہیں۔
کیاتمام سکیورٹی گارڈز مسلح ہیں؟
عام طور پر ہائی سیکیورٹی الرٹ زونز میں تعینات بہت سے سیکیورٹی گارڈز مسلح ہوتے ہیں ،جنھیں حکومت کی جانب سے لائسنس یافتہ ہونے کی شرط پر آتشیں اسلحہ دے کر منظم کیا جاتا ہے۔لیکن نجی محافظوں کی اکثریت کے پاس ا سلحے کا لائسنس نہیں ہے ، جس کی وجہ سے وہ ڈیوٹی کے دوران ہتھیار رکھنے کے اہل نہیں ہوتے ہیں۔ اگرچہ کچھ اعلیٰ حفاظتی مقامات جیسا کہ سرکاری عمارات، بینک اور سفارت خانوں میں مسلح سیکیورٹی گارڈز تعینات کیے جاسکتے ہیں، لیکن زیادہ تر مقامات پر ایسا نہیں کیا جاتا ہے۔ درحقیقت، مسلح سیکورٹی گارڈز کو عام طور پر ان علاقوں تک محدود رکھنا ہوتا ہے جہاں سیکیورٹی خطرات یا مجرمانہ سرگرمیوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ لہذایہ ایک غلط العام مفروضہ ہے کہ پاکستان میں تمام سیکیورٹی گارڈز مسلح ہیں، ایسانہ ہونے سے عوامی تحفظ کے فریضہ کی انجام دہی موثر نہیں رہتی۔ لہذا ان لوگوں کے پاس خطرہ سے بہتر اندازمیں نمٹنے کی بھر پور صلاحیت موجودہونی چا ہئے ۔
کیا تمام سکیورٹی گارڈزاعلیٰ تربیت یافتہ ہیں؟
بہت سے سیکیورٹی گارڈزمعمولی نوعیت کی تربیت یا بغیر کسی ٹریننگ کے ڈیوٹی پر تعینات کردیے جاتے ہیں بلکہ عام طور پروہ بنیادی سیکیورٹی پروٹوکول سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ گارڈز سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کی یا ہنگامی حالات میں موثر مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگرچہ بہت سے امورمیںسیکیورٹی گارڈز کو تعیناتی سے قبل کسی باقاعدہ تربیت دینا یا سرٹیفیکیشن کے عمل سے گزارنا ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن یہ واجبی سے تربیت معمولی یا رسمی نوعیت کی بھی ہوسکتی ہے جوضروری مہارتوں اور متعلقہ معلومات کا احاطہ نہ کرنے کی وجہ سے متاثر کن نتائج کے حصول میں ناکام ثابت ہوتی ہے۔تربیت کافقدان مجموعی طور پر سیکیورٹی انڈسٹری کے معیار کو پست کرتا ہے۔ مختلف کمپنیوں یا افراد کی فراہم کردہ حفاظتی خدمات کے معیار میں نمایاں فرق پایاجاتاہے۔ اگرچہ پاکستانی معاشرے کے بعض شعبوں میں بدعنوانی ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن یہ تصور ناانصافی ہے کہ تمام سیکیورٹی گارڈز بدعنوان ہیں، کیونکہ بدعنوانی بعض شعبوں میں ایک مسئلہ ہے،بحیثیت مجموعی سیکیورٹی انڈسٹری اس مرض سے مبراء ہے۔ کسی بھی پیشے کی طرح سیکیورٹی انڈسٹری میں بھی بعض مخصوص افراد بدعنوانی میں ملوث ہوسکتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر پوری انڈسٹری ہی کو بدعنوان گرداننا مناسب نہیںہے۔ہمیں اس امر کو تسلیم کرنا ہوگا سیکیورٹی گارڈز کی اکثریت ایماندار، محنتی، اور عوامی تحفظ اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔ سیکیورٹی انڈسٹری میں بدعنوانی اکثر وسیع تر سماجی مسائل کاردعمل ہوتی ہے،جن میں غربت، جوابدہی کا فقدان اور اقرباء پروری کی بناء پر استثنائی ماحول وغیرہ شامل ہیں۔ سیکیورٹی کی صنعت میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں ان بنیادی مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔
کیا وہ سب ان پڑھ ہیں؟ اگرچہ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں بعض محافظوں کی تعلیم محدود ہوسکتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ کلیہ تمام سیکیورٹی گارڈزپر صادق آئے۔ دیگر پیشوں کی طرح سیکیورٹی گارڈز کے لئے بھی ہنرمند اور تعلیمی یافتہ ہونا ضروری ہے، بعض عہدوں کے لیے بنیادی خواندگی اور عددی مہارتوںسے کام چل جاتا ہے تاہم اسی شعبہ میں بعض عہدوں پر تعیناتی کے لیے اعلیٰ سطح کی تعلیم یا خصوصی تربیت ناگزیر ہوتی ہے۔تعلیم ہمیشہ ملازمت کی کارکردگی یااس کو موثربنانے کے لیے اہم تصور نہیں کی جاتی ہے۔پاکستان میں بہت سے سیکیورٹی گارڈز کی محدود رسمی تعلیم پر بھی اکتفا کی جاسکتا ہے، لیکن ان کے پاس قابل قدر مہارتیں اور ایسے تجربات ہیں جو ان کے کام سے مطابقت رکھتے ہیں، جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں یا فوج میں ملازمت کا تجربہ۔ پاکستان میں صرف چند سیکیورٹی کمپنیاں اعلی تعلیم یافتہ افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمت دیتی ہیں،جن میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل یا سیکیورٹی یا متعلقہ شعبوں میں خصوصی تعلیم وتربیت حاصل کرنے والے افراد شامل ہیں کیونکہ ایسی کمپنیاں اپنے کلائنٹس کے لیے معیاری حفاظتی خدمات کو یقینی بنانے میں تعلیم اور تربیت کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہیں۔اب آتے ہیں نجی سیکیورٹی انڈسٹری کی کمزوریوں اور خامیوں کے تجزیاتی جائزے کی طرف جن میں سیکیورٹی پرووائیڈرز اور پرائیورٹ ادارے شامل ہیں:
غیر اطمینان بخش معاوضے کے پیکجز:
؎ پاکستان میں سیکیورٹی گارڈز عام طور پر کم اجرت وصول کرتے ہیں، جو اکثر قلیل ترین اجرت کے معیار سے بھی کم ہوتی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں کم سے کم37,000 روپے ماہانہ تنخواہ لازمی قراردی ہے،جو اس سے قبل 25000 روپے تک بھی نہیں تھی۔ پاکستان میں بہت سے لوگ ملازمتوں کے متلاشی ہیں اور یہاں سیکیورٹی گارڈز کی خدمات کی بلند شرح طلب نے مزدوروں کی تعداد میںخاصا اضافہ کیا ہے، اس وجہ سے سیکیورٹی انڈسٹری میںملازمین کی بہتات پائی جاتی ہے اور یوں انھیں کم اجرت پر بھرتی کرلیا جاتاہے۔ کم اجرت پر تعیناتی کا باعث بننے میں ایک عنصر سیکیورٹی انڈسٹری میں ضابطے کا فقدان بھی ہے۔ سیکیورٹی گارڈز کے لئے کم ترین اجرت کاتقاضہ پاکستان میں شاذ و نادر ہی پورا کیا جاتا ہے۔ اس سے آجروں کو من مانی اجرت پر خدمات لینے کا حوصلہ مل جاتاہے۔ایسے میں سیکیورٹی گارڈز کے لیے بہتر اجرت یا کام کے بہتر حالات کا مطالبہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور آجر کی مقرر کردہ اجرت ان کی بہبود اور معیار زندگی پر ناخوشگواراثرات مرتب کرتی ہے۔ بہت سے سیکورٹی گارڈز اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے طویل دورانیہ تک کام کر تے یاایک سے زائد ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے سیکیورٹی گارڈز صحت کے بیمہ، بامعاوضہ چھٹی یا ریٹائرمنٹ پلان جیسی سہولیات سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں۔بعض سیکیورٹی کمپنیاں اپنے گارڈز کو سہولیات فراہم کرنے کے ضمن میںاجرت کے حوالے سے کوئی قانونی جانچ نہ ہونے سے فائدہ اٹھاتی ہیں یا مالی مجبوریوںکو جواز بناکر مراعات نہیں دیتی ہیںیا اخراجات میں کمی کے خاطر سہولیات کی پیشکش ہی نہیں کرتی ہیں۔ پاکستان میں سیکیورٹی گارڈز کے لیے مراعات کی کمی ان کی فلاح و بہبود اور معیار زندگی پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔انھیں ہیلتھ انشورنس کے بغیر صحت سے متعلق مسائل کے دوران اضافی جدوجہد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
صحت اور عمر سے متعلق خدشات:
بہت سے سیکیورٹی گارڈز یا تو طبی طور پر نااہل ہوجاتے ہیں یا 55 سال سے زائد عمر ہونے پر ان کے کام کے معیار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
جسمانی تندرستی اور پولیس کلیئرنس کا فقدان:
سیکیورٹی گارڈز کے لیے ان کی مستقل اور موجودہ رہائش گاہوں سے جسمانی فٹنس سرٹیفکیٹ اور پولیس کلیئرنس سرٹیفکیٹ کی غیر موجودگی قابل ذکر ہے۔ بہت سے سیکیورٹی گارڈزنا کافی سہولیات کی وجہ سے سخت حالات میںبھی طویل عرصے تک ملازمت سے جڑے رہتے ہیں جس کے سبب ان کارکردگی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
عوامی آگاہی کا فقدان:
سیکیورٹی کے معاملات کے بارے میںکم علمی کی وجہ سے بعض لوگ اپنی املاک اور قیمتی اشیا ء کی حفاظت کے لیے پیشہ ور سیکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کرنے کی زحمت نہیں کرتے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ سیکیورٹی گارڈز تربیت یافتہ پیشہ ور ہیں یاکسی نوکری کی تلاش میں ہیں۔ البتہ جو لوگ علم رکھتے ہیں وہ ادائیگی کرنے کو تیار نہیں ہوتے ،عام طور پر لوگ سیکیورٹی گارڈز کو معمولی سمجھتے ہیں اور کسی کمپنی کو ادائیگی کرنے اور سیکیورٹی گارڈ کی خدمات حاصل کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیکیورٹی گارڈز کو کم معاوضہ دیا جاتا ہے، جب لوگ پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوںسے کم ادائیگیوں پر خدمات حاصل کرتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر سیکیورٹی گارڈز کی تنخواہوں اور مراعات پر پڑتا ہے اور وہ کم تنخواہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے مسلح افواج کے اہلکار سیکیورٹی سروسز میں شامل ہونے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ انھیں آفر ہونے والی ملازمتوں میں بورڈنگ، قیام، طعام، اور دیگر فلاح و بہبود سے متعلق مراعات کا فقدان پایا جاتا ہے۔
محدود تربیت:
اکثر سیکیورٹی اہلکاروں کی تربیت متعلقہ امور کی انجام دہی کے لیے ناکافی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مشکل حالات کو سنبھالنے یا جدید سیکیورٹی آلات کوموثر طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ سیکیورٹی صنعت کے اندر مجموعی طور پر پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ہے، بہت سے سیکیورٹی گارڈز میں ضروری مہارت، نظم و ضبط اور اخلاقی ذمہ داریوں کو سمجھنے کیخاطر خواہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ بہت سے محافظوں کے پاس (APSAA)جیسے تسلیم شدہ اداروں سے تربیتی سرٹیفکیٹ کا نہ ہونا انھیں ہتھیاروں سے نمٹنے یا ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرنے کی مہارت سے محروم رکھتا ہے۔ پاکستان میںسیکیورٹی گارڈز کو محدود یا کوئی تربیت فراہم نہیں کی جاتی۔ جس کی وجہ سیکیورٹی انڈسٹری میں ضوابط کا فقدان ہے۔ کچھ ممالک کے برعکس جہاں سیکیورٹی گارڈز کی تربیت اور سرٹیفیکیشن کے لیے مخصوص تقاضے ہیں وہاں پاکستان میں ضوابط کی پابندی شاذ و نادر ہی کی جاتی ہے۔ لہذا نجی کمپنیوں کے مالکان اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے سیکورٹی گارڈز کو واجبی سے تربیت یا ترقی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ محدود تربیت کی ایک اور وجہ سیکیورٹی انڈسٹری میں کاروبار کی بلند شرح ہے کیونکہ بہت سے سیکیورٹی گارڈز کو قلیل مدتی یا آرام دہ شرائط کی بنیاد پر ملازمت دی جاتی ہے، تو اس سے مالکان کے لئے محافظوںکی تربیت اور ترقی میں سرمایہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ سیکیورٹی گارڈز کو دی جانے والی کم اجرت مالک کو تربیت کے مواقع فراہم کرنے میں مزید حوصلہ شکنی کاباعث بنتی ہے۔
ناکافی آلات /سازوسامان:
سیکیورٹی کی صنعت میں ناکافی سرمایہ کاری کے سبب سیکیورٹی گارڈز کو بنیادی آلات جیسے ریڈیو یا فلیش لائٹس تک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی۔اکثر مالکان مالی مجبوریوں کے پیش نظراپنے گارڈزکو ضروری سامان فراہم کرنے کے لیے تیار یا اہل نہیں ہوتے۔بہت سے مالکان بنیادی سامان فراہم کرنے کی اہمیت سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ بہت سے سیکیورٹی گارڈز ہائی رسک زونز میں مامور کردیے جاتے ہیں جہاں تشدد اور دہشت گردی کا خطرہ ہمہ وقت ان کے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے مالکان اپنے سیکیورٹی گارڈز کو سامان فراہم کرنے میں محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں، کیونکہ ایسے میں ان کے آلات / سازوسامان دہشت گرد چوری یا ضبط کر سکتے ہیں۔ سیکیورٹی گارڈز کو اکثر اعلیٰ ترین ہتھیار لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی،جو انھیں مسلح ڈاکوؤں کی کارروائی کے خلاف دفاع کرنے کی صلاحیت میں محدود کردیتے ہیں۔ بہت سی کمپنیاں پرانے دور کے حفاظتی آلات پر انحصار کرتی ہیں، جو موثر خدمات فراہم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، خاص طور پر آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں جدید ترین نگرانی اور سائبر سیکیورٹی کے اقدامات اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹیکنالوجی کا محدود استعمال، جن میں نگرانی کے نظام، بائیومیٹرک رسائی کے کنٹرول، اور مواصلاتی آلات، سیکیورٹی آپریشنز شامل ہیں، کی مجموعی تاثیر کم ہوجاتی ہے۔ پرائیویٹ کمپنیاں اکثر اپنے آپریشنز کو جدید حفاظتی آلات سے لیس کرتی ہیں،ایسے میں وہ اخراجات کو کم کرنے کے لیے گارڈ کی کم سے کم سے کم تعداد رکھتی ہیں، جس سے مجموعی سیکیورٹی پر سمجھوتہ کر لیاجاتا ہے۔
پشت پناہی (بیک اپ)سیکیورٹی کا فقدان:
پرائیویٹ کمپنیاں بیک اپ گارڈز کی خدمات کا معاوضہ برداشت نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے انھیں بنیادی گارڈز کے دستیاب نہ ہونے پر سیکیورٹی میںسقم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سیکورٹی بجٹ پر دھیان کی کمی:
پرائیویٹ کمپنیاں اپنے سیکیورٹی بجٹ کو بڑھانے کے مقابلے میں مارکیٹنگ اور مصنوعات کے اشتہارات کو ترجیح دیتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی فعالیت کا معیار غیر موثر ہوجاتا ہے۔
بکتر بند گاڑیوں کی عدم فعالیت:
پاکستان میں ایک سیکیورٹی کمپنی کے علاوہ جس کے پاس 100 فیصد(تمام درآمد شدہ) B4/B5بکتر بند گاڑیاں موجود ہیں۔ صرف ایک اور کمپنی ہے،جس کے پاس کچھ فیصد یہ سہولت دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ دیگر تمام کیش اِن ٹرانزٹ (سی آئی ٹی)کمپنیوں کے پاس بکتر بند گاڑیاں موجود ہی نہیں ہیں، جوبیش قیمت ہونے کی وجہ سے پاکستان میں نہیں لائی جا سکتی ہیں۔ اس طرح لاپرواہی سے کام کرنے والی کمپنیاں زیادہ قیمتی نقد رقوم اور سامان کی نقل و حمل کے دوران غیر ضروری طور پر اپنے عملے کی جانوںکو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔تاہم یہ حیران کن امر ہے کہ انشورنس کمپنیاں جنہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے وہ صرف انشورنس پریمیم کی وصولی میں مستعد نظر آتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن(پی بی اے)بلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان(ایس بی پی)کا بھی تزویراتی اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس خامی کو دور کروائے یا کم از کم مذکورہ آلات کے مطابق کمپنیوں کی درجہ بندی کرے۔
پالیسی کی خلاف ورزیاں:
وزارت داخلہ (Ministry of Interior)اور سیکیورٹی کمپنیاں دونوں گارڈز کے لیے جانچ کے عمل کے دوران پالیسیوں کی خلاف ورزی کی مرتکب پائی گئی ہیں۔ بینکنگ انڈسٹری کے لیے ان مسائل کو حل کرنے میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن (PBA) کا کردار خاصا کم ہے۔ متعلقہ دستاویز تجویز کرتی ہے کہ پی بی اے کو دیگر ریگولیٹری اداروں جیسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت داخلہ کے ساتھ مل کر سیکیورٹی معیارات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے مزید فعال اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمیشہ ایک سینئر بینکر کی سربراہی میں، PBA کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ پرائیویٹ سیکیورٹی انڈسٹری میں موجود خامیوں کو دور کرے لیکن وہ بالکل جانبدار نظر آتی ہے۔ اسٹیٹ بینک آسانی سے کہتا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان سے سیکیورٹی سروس پرووائیڈرز کے لیے سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
پُر خطر ملازمت :
پاکستان میں سیکیورٹی گارڈز کو ہمیشہ سنگین نقصان یا حادثات کا خطرہ رہتا ہے، خاص طور پر ان محافظوں کو جو جرائم کی بلند شرح یا دہشت گردی کی زد میں واقع علاقوں میں فرائض انجام دیتے ہیں۔
مارکیٹ میں اتار چڑھا ئو/ مسابقت:
الف۔ غیر منظم مسابقت: سیکیورٹی صنعت بہت زیادہ انتشار کا شکار ہے، جس میں بڑی تعداد میں چھوٹی کمپنیاں مقابلہ کرتی ہیںاور اکثر قیمتوں اور سروس کے معیار کے لحاظ سے سب سے نچلی سطح کی دوڑ کا حصہ بن جاتی ہیں۔
ب۔ یکجہتی کا فقدان: چھوٹی فرموں کے درمیان استحکام کی عدم موجودگی کے نتیجے میں ناکارگی اور اسکیلنگ آپریشنز یا سروس کے معیار کو بہتر بنانے میں دشواری ہوتی ہے۔
ج۔ ساکھ اور عوامی تاثر: عام لوگ اور کاروباری حضرات نجی سیکیورٹی کمپنیوں کو بدعنوانی، نااہلی، یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ماضی کے واقعات کی وجہ سے ناقابل اعتبار یا ناقابل اعتماد کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
د۔ احتساب کا فقدان: پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے لیے اکثر محدود احتساب ہوتا ہے، جس کی وجہ سے غیر رپورٹ شدہ بدسلوکی یا خدمات کی فراہمی میں ناکامی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
سلامتی کے خطرات اور خدشات :
الف۔۔ داخلی سلامتی کو لاحق خدشات: اندرونی خطرات کا خدشہ ، جہاں سیکورٹی اہلکار خود مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں، جانچ کے خراب عمل کی وجہ سے یہ ایک تشویشناک امر ہے۔
ب. بیرونی خدشات: سیکورٹی کی صنعت جدید تربیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ اور ابھرتے ہوئے بیرونی سیکورٹی خطرات، جیسے دہشت گردی اور منظم جرائم کا موثر طریقے سے جواب دینے میں بھی جدوجہد کرتی نظرآتی ہے۔
نامکمل دستاویزات اور فوائد:
سیکیورٹی کمپنیاں اکثر اپنے گارڈزکی ضروری دستاویزات اورمراعات کی تعمیل کرنے میں ناکام رہتی ہیں، جیسے:
الف۔ تربیتی نصاب
ب۔ تربیتی نظام الاوقات اور ٹائم فریم
ج۔ فائرنگ کی مشق کے نظام الاوقات
د۔ تمام گارڈز کے لیے EOBI اور ESSI رجسٹریشن/کارڈ
ہ۔ ایک تسلیم شدہ انشورنس کمپنی سے میڈیکل انشورنس کوریج، صحت کی پالیسیاں اور موت کی صورت میں تلافی
و۔ پراویڈنٹ فنڈ کا کوئی وجود نہیں ہے سوائے چند کمپنیوں کے (400 میں سے صرف2 یا 3) جن کے پاس سہولیات، چھٹی(بامعاوضہ، اتفاقی، علالت اور سالانہ) سے متعلق پالیسیاںموجود ہیں۔
ز۔ گارڈز کے اہل خانہ کے لیے فلاحی پالیسیاں (مثلا،میڈیکل، بچوں کی تعلیم، بیوہ کی پنشن وغیرہ)
ح۔. نادرا اور پولیس کی تصدیق
ط۔ بڑھاپے یا طبی لحاظ سے نااہل گارڈز کے لیے معاونت۔ اس کا آڈٹ کیے جانے اور کمپنیوں کو ان کے ملازمین کو واجبات ادا کرنے کے لیے جواب دہ بنانے کی ضرورت ہے۔
محکمہ پولیس کا کردار
یہ مطالعہ سیکیورٹی کی تصدیق اور قانون کے نفاذ میں محکمہ پولیس کے کردار کے حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کرتا ہے:
الف۔ جانچ کاعمل: سیکیورٹی گارڈز کے لیے پولیس کی تصدیق کے عمل کی کارکردگی اور درستی کے بارے میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
ب۔ امن و امان کا احتساب: اس مطالعے میں پولیس فورس کے اندر امن و امان کے قیام کے ضمن میں ناکامیوں پر جوابدہی کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں گرفتاریاں اور مجرموں کو عدالتی سزائیں بھی شامل ہیں۔
ج۔ سیکیورٹی کے معیار میں فرق: مقامی اور غیر ملکی بینکوں کے درمیان سیکیورٹی کے معیارات میں نمایاں تفاوت پایا جاتا ہے، مقامی بینکوں میں ڈکیتیوں کا زیادہ خطرہ نسبتاََ زیادہ ہے۔
د۔ سیکیورٹی کلیئرنس کے مسائل: پنجاب اور سندھ میں گارڈز کی ایک بڑی تعداد مناسب سیکیورٹی کلیئرنس سے محروم ہے، جو مجموعی سیکیورٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
بہتری کے لیے اقدامات:
ریٹائرڈ مسلح اہلکاروں کو درپیش معاشی اور سماجی آزمائشوںسے نبرد آزما ہونے کے لیے یہ مطالعہ منظم انداز میں نجی سیکیورٹی سیکٹر کی متوازن ترقی کو یقینی بنائے گا۔یہاں کمزوریوں کی نشاندہی کے ساتھ انھیں دور کرنے کے لیے متعدداقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں:
الف۔ سخت لائسنسنگ اور جانچ پڑتال: وزارت داخلہ مکمل جانچ پڑتال کے بعد ہی سیکیورٹی کمپنیوں کو لائسنس جاری کرے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ نجی شعبے میں صرف قابل کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت ہے۔
ب۔ ہتھیاروں کی تجدید کریں: سیکیورٹی گارڈز کو جدید، موثر ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہیے جو مجرموں کے استعمال سے مماثل ہوں۔
ج۔ لازمی تربیت: سیکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے رکھے گئے غیر فوجی اہلکاروں کو ملازمت کے لیے مخصوص تربیت کے عمل سے گزارنا چاہیے، اور تمام محافظوں کو باقاعدہ فائرنگ کے طریقوں میں حصہ لینا چاہیے۔ اگر بڑی کمپنیوں کے اپنے تربیتی اسکول ہیں، تو انہیں بیوروکریٹک دشواریوں کے بغیر مستند ہونا چاہیے۔
ہ۔ بہتر معاوضہ اور کام کے حالات: گارڈز کو زیادہ سے زیادہ 8 گھنٹے کی شفٹوں میں کام کرنا چاہیے، مناسب معاوضہ دیا جائے، اور انشورنس کوریج فراہم کی جائے۔ معاوضے کے پیکجزکو بہتر بنانا اور مناسب اوقات کار کو یقینی بنانا، زیادہ اہل افراد کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے، بالخصوص وہ گارڈز جو مسلح افواج سے آتے ہیں ان کے پراویڈنٹ فنڈ یا گریجویٹی، میڈیکل انشورنس وغیرہ ضروری ہیں۔
و۔ بہتر نگرانی اور دستاویزات: سیکورٹی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ روزانہ دو بار گارڈز کی نگرانی کی جائے، مکمل دستاویزی ریکارڈ رکھا جائے، اور یہ یقینی بنایا جائے کہ تمام گارڈز جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ ہیں۔
ز۔ خصوصی حفاظتی اقدامات: نجی کمپنیوں کو فی برانچ میں کم از کم تین گارڈز اور ایک سپروائزر تعینات کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام گارڈز ہتھیاروں سے نمٹنے اور خطرے کا پتہ لگانے میں ماہر ہوں۔
ح۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون: پرائیویٹ کمپنیوں، سیکیورٹی کمپنیوں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے،جس میں باقاعدہ ملاقاتیں اور خصوصی ٹاسک فورسز کا قیام بھی شامل ہو۔
ط۔ کنٹرول رومز اور فوری ردعمل: سیکیورٹی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ پولیس اور رینجر کے نمائندوں کے ساتھ کنٹرول روم قائم کریں تاکہ سیکیورٹی کی خلاف ورزیوں پر فوری ردعمل کو یقینی بنایا جا سکے۔
سفارشات اور تجاویز
اس سیکشن کا مقصد نجی سیکیورٹی کمپنیوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ریٹائرڈ مسلح اہلکاروں کو دوبارہ ملازمت دے کر پاکستان میں سیکیورٹی کے شعبے سے متعلق متعدد مسائل کو حل کیا جانا ہے۔ ذیل میں اہم نکات پر زور دیتے ہوئے خرابی کو دور کرنے کیلئے تجویز دی گئی ہے:
1۔ پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کا مرکزی کنٹرول اور یکساں تربیت:
الف۔ موجودہ صورتحال: پاکستان بھر میں 600,000 سے زیادہ پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کام کر رہے ہیں، جو حساس مقامات کی حفاظت یابطور محافظ دستہ خدمات سرانجام دیتے ہیںاور بڑی رقم کی نقل و حمل جیسی اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
ب۔ تجویز: تربیتی اسکولوں کا قیام: حکومت کی نگرانی میں ہر صوبے میں مکمل تربیتی ادارے قائم کیے جائیں۔ یہ اسکول تمام نجی سیکیورٹی کمپنیوں میں یکساں تربیتی معیار کو یقینی بنائیں گے۔ جن کمپنیوں کے اپنے تربیتی ادارے ہیں ان کی طرف سے باقاعدہ تصدیق کی جا سکتی ہے۔
ج۔ حکومتی فنڈنگ: ان تربیتی اداروں کے قیام کے ابتدائی اخراجات حکومت کو برداشت کرنا چاہیے۔ جاری آپریشنل اخراجات پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے ماہانہ عطیات سے ادا کیے جا سکتے ہیں، جو ان کے ملازموں کی تعداد کی مناسبت سے ہو۔
د۔ بھرتی: تربیت مکمل کرنے کے بعد، حفاظتی کمپنیاں مانگ کی بنیاد پر گارڈز بھرتی کریں گی، جس سے اچھے تربیت یافتہ اہلکاروں کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنائی جائے گی۔
2۔ پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ پولیس کے محافظ دستوں کی تبدیلی:
الف۔ موجودہ صورتحال: پولیس افسران اس وقت نقدی اور قیمتی سامان کی حفاظت کے لیے کام کر رہے ہیں،یہ عمل انہیں ان کے بنیادی فرائض سے ہٹانے کے مترادف ہے۔
ب۔ تجویز: پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کو تربیت دی جا سکتی ہے اور ان فرائض کی انجام دہی کے لیے تعینات کیا جا سکتا ہے، جس سے پولیس افسران کو دیگر ضروری کاموں کے لیے مناسب وقت میسر ہو سکتا ہے۔ یہ طریقہ ریٹائرڈ مسلح اہلکاروں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے گا۔
3۔ سابق فوجیوں کی دوبارہ ملازمت اور فلاحی پروگرام:
الف۔ موجودہ صورتحال: ملک میں ہر سال تقریبا 50,000 سے 60,000 مسلح اہلکار سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو جاتے ہیں، جن کو بہت سے چیلنجز جیسے مہنگائی اور ملازمت کے مواقع کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ ان ریٹائر ہونے والے گارڈز کے لیے موجودہ فلاحی پروگرام بہت کم ہیں،جو فوجی فاؤنڈیشن اور دیگر چھوٹے پیمانے کے پروگراموں تک محدود ہیں۔
ب۔ تجویز: حکومت ان سابق فوجیوں کو پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے ذریعے دوبارہ ملازمت دے کر مزید فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ اقدام ریٹائر ہونے والوں کے لیے مستقل روزگار کے مواقع فراہم کرکے موجودہ فلاحی پروگراموں کے محدود دائرہ کار کو بھی وسیع کرے گا۔
طبی فوائد اور محافظوں کے لیے دیگر مراعات کا جامع موازنہ تجزیہ درج ذیل ہے:-
گارڈز کے لیے طبی فوائد اور دیگر مراعات کا موازنہ
کمپنی کا نام کمپنی نمبر1 کمپنی نمبر2 کمپنی نمبر3 کمپنی نمبر4 کمپنی نمبر5 کمپنی نمبر 6
کم سے کم اجرت 37ہزار 32 ہزار 32تا37 ہزار 32 تا37 ہزار 28 ہزار(حالیہ زیر غور) 28 تا32 ہزار
طبی بیمہ/ صحت بیمہ او پی ڈی موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود موجود غیر موجود
اسپتال میں داخلہ موجود غیر موجود غیر موجود موجود موجود غیر موجود
موت پر زرتلافی موجود کیس کے مطابق غیر موجود کیس کے مطابق غیر موجود موجود
پراویڈنٹ فنڈ موجود غیر موجود موجود غیر موجود موجود غیر موجود
طعام کی سہولیات موجود موجود موجود موجود موجود موجود
ملازم کی حوصلہ افزائی (مہینہ کی
تکمیل پر بہترین گارڈ کی ستائش) موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود
یونیفارم(وردی) موجود موجود موجود موجود موجود موجود
ٹریننگ اسکول بنیادی موجود80گھنٹے غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود
فائرنگ موجود 40 گھنٹے غیر موجود غیر موجود 3رائونڈ فائرنگ غیر موجود غیر موجود،
ریفریشر ٹریننگ موجود16گھنٹے غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود
بامعاوضہ چھٹیوں کی پالیسی
(حادثاتی،سالانہ، علالت) موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود
بچوں کی مفت تعلیم موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود موجود غیر موجود
موت کے بعد وارث
کی ملازمت کا موقع موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود
گزٹڈ اوور ٹائم موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود
بعداز موت تنخواہ/ بیوہ کی پنشن موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود
ویٹرن پروٹیکشن یونٹ
(VPU) موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود غیر موجود
نتیجہ:
تفصیلی تجزیہ سیکیورٹی کمپنیوں سے موصولہ نظرثانی شدہ معلومات کے ذریعے فراہم کردہ فوائد اور مراعات میں نمایاں تفاوت کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ کچھ کمپنیاں طبی بیمہ کے کچھ درجے کی پیشکش کرتی ہیں، دیگر فوائد جیسے زندگی کی بیمہ ،بعداز موت پسماندگان سے تلافی، اور گرییجویٹی کی پورے گوشوارے میں کمی ہے۔ اسی طرح، کچھ لوگوں کی طرف سے پروویڈنٹ فنڈ کی پیشکش کی جاتی ہے۔ رہائش کا بندوبست، کھانے کے انتظامات، اور نقل و حمل کی سہولیات عام طور پر ناکافی ہیںاور ملازمین کی شناخت کے پروگراموں کی غیر موجودگی قابل ذکر ہے۔ تربیتی پروگرام محدود ہیں جبکہ چھٹی کی پالیسیاں ناقص ہیں۔ موازنہ صرف ایک کمپنی کی طرف سے فراہم کردہ اعلیٰ مراعات اور سہولیات پر روشنی ڈالتا ہے، خاص طور پر طبی فوائد، وارڈز کے لیے تعلیم، خاندانوں کے لیے ملازمت کے مواقع، اور گزیٹڈ اوور ٹائم کے لحاظ سے، جن سے دوسری کمپنیاں مطابقت نہیں رکھتیں اور ان کی مثال نہیں ملتی۔
مجوزہ سفارشات کا مقصد نجی سیکیورٹی کمپنیوں کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اور ریٹائرڈ مسلح اہلکاروں کو درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاکستان میں سیکیورٹی سہولیات کو بڑھانا ہے۔ کنٹرول کو مرکزی بنا کر، یکساں تربیت کو یقینی بنا کر، اور پولیس کے محافظ دستوں کو نجی سیکیورٹی گارڈز سے ہٹا کر، یہ اقدامات زیادہ موثر اور محفوظ ماحول پیدا کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، سابق فوجیوں کی دوبارہ ملازمت دینے سے ریٹائر ہونے والے سپاہیوںکو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی، جس سے ملک کی مجموعی بہبود میں مدد ملے گی۔
ظفر محسود ایک پی ایچ ڈی اسکالرشپ ہولڈر ہے جو بیہانگ یونیورسٹی Beihang University(چین کی اعلی یونیورسٹیوں میں سے ایک) سے ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔ اعلی ٰدرجے کے جرائد میں ان کے تین تحقیقی مقالوں کی اشاعت شامل ہے۔ ان کے پاس ارنسٹ اینڈ ینگ بحرین Ernst & Young Bahrain( ممبر آف ارنسٹ اینڈ ینگ گلوبل)میں کام کرنے کا 6 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے جو کہ کلائنٹ سروس ایکسیلنس کے لیے پوری دنیا کی رکن فرموں کی ایک تنظیم ہے۔ ان کے پاس نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(پاکستان کی اعلی ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک) میں مینجمنٹ سے متعلق مضامین پڑھانے کا 3 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔