بانیانِ پاکستان کے پیشِ نظر قیامِ پاکستان کے چند مقاصد تھے، کہ مسلمان یہاں اسلام کے سنہری اْصولوں کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کریں گے۔ مسلمانوں کے علاوہ تمام اقلیتیں یہاں محفوظ ہوں گی اور اْنھیں بھی اپنی مذہبی رسومات کی آزادی حاصل ہو گی۔ یہ ایک اسلامی فلاحی جمہوری ملک ہوگا۔ شریعتِ محمدی کا عملی طور پر نفاذ ہو گا۔ قومی و سرکاری زبان اْردو ہو گی۔ بدقسمتی سے قائد اعظم قیام پاکستان کے گیارہ مہینے بعد رحلت فرما گئے۔ یہ ملک جاگیرداروں، وڈیروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ پس منظر یہ تھا کہ اس مملکت کے حصول کے لیے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں، خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ لوگوں نے اپنی جائیدادیں ، گھر بار چھوڑے۔ اَب 77سال کے بعد ملک کے حالات دیکھ کر دل خْون کے آنسوروتا ہے۔ نہ ماضی تابناک ہے اور نہ روشن مستقبل نظر آتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ 77سال سے یہاں احتساب نام کی کوئی چیز ہی نہیں جہاں احتساب نہ ہووہاں جنگل کا قانون ہوتا ہے۔ جس طاقتور کے ہاتھ میں جو آتا ہے اْٹھا لیتا ہے۔ زیادہ دْور نہ جائیے۔ اِن چالیس سالوں میں تو دو پارٹیوں نے یہاں ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر ’’بادشاہت‘‘ کی ہے۔ اْنکے ’’کارنامے‘‘ کیا ہیں۔ بتانے کی ضرورت ہی نہیں، سب پرعیاں ہیں۔ 77سال بعد بھی لوگوں کے گھروں میں چولہوں میں گیس نہیں آتی۔ بِل بھاری آتے ہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ باقاعدگی سے ہوتی ہے اور بجلی کے بِلوں نے تو عوام الناس کاجینا بھی دوبھر کر رکھا ہے۔ صنعتیں بند ہیں۔ صحت کی سہولیات نہیں ہیں۔ تعلیم انتہائی مہنگی اور ناقص ہے۔ حکومت عوام کو اْن کی بنیادی سہولتیں دینے میں ناکام ہے۔ دوسری طرف صرف سانس لینے پر ہی اَب تو ٹیکس لگانا باقی رہ گیا ہے۔ ٹیکس کے بغیرملک نہیں چلتے مگر پہلے حکومتیں عوام کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ جہاں عوام اپنے تمام بنیادی حقوق سے بھی محروم ہو اشرافیہ طبقہ لوٹ مار ہی کرتا رہا ہو تو اتنے زیادہ ٹیکسز کاجواز تو رہتا ہی نہیں۔کئی پارٹیوں نے حکمرانی کی، خوب مزے لیے۔ اندرون و بیرون ملک جائیدادیں بنائیں۔ عوام کی فلاح کے لیے صرف ایک منصوبہ تک نہیں بنایا۔ جس ملک میں 77سال بعد بھی گیس اوربجلی نہیں ہے وہاں دیگرضروریاتِ زندگی کا رونا تو فضول ہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے۔پارٹیوں کے لو گ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہی نہیں بلکہ ننگی گالیاں تک ایک دوسرے کو دیتے رہے۔ سب کچھ ریکارڈ پرہے۔ یہ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں پر چلتا رہا، اب تیسری پارٹی آ گئی۔ تیسری پارٹی کے لیڈر نے بڑھکیں مار کر اپنوں غیروں سب کو دشمن بنا لیا۔ اب سب پارٹیاں سمیت سب مِل کر اْس تیسری پارٹی کے خلاف ہو گئے۔ 2018ء میں تیسری پارٹی کی حکومت بنی۔ مخالف کہتے ہیں کہ بنائی گئی۔ بہرحال شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم اور ایک سیاسی پارٹی کے سابق راہنما بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ یہاں پر الیکشن چْرایا جاتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے بھی الیکشن چرائے ہیں۔ اب ’’جمہوریت‘‘ ویسے ہی دفن ہو گئی۔ اب ملکی حالات انتہائی پریشان کن ہیں۔ عوام کی کسی کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔ 2024ء میں پھر الیکشن ہوئے۔ ظاہری طور پر تیسری پارٹی کو اکثریت ملی، چونکہ اس کو دوبارہ لانا نہیں تھا۔ وہ پارٹیاں جو کبھی ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے ایک دوسرے کو گھسیٹنے کے ببانگ دْھل دعوے کرتے تھے، آج وہ سب تیسری پارٹی کے خلاف یک جان دو قالب ہیں۔ شب و روز قانون میں ترامیم کی جا رہی ہیں تاکہ پسند کی عدالتیں اور پسند کے ججز لگائے جائیں، مرضی کے فیصلے یے جائیں۔ حالات کی سنگینی کی کسی کو بھی فکر نہیں۔ آئی ایم ایف سمیت تقریباً درجن ممالک کے ہم اس وقت مقروض ہیں۔ صنعتیں، فیکٹریاں سب بند ہیں۔ سرمایہ کاری نہیں ہے۔ پاک فوج دنیا کی بہادر فوج ہے۔ انھوں نے اپنے کالے کرتوتوں سے پاک فوج کو بھی متنازع بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج سمیت ہر ادارے کی تذلیل کی جاتی ہے۔ عوام اپنے حالات کی پسماندگی کے سبب رونے دھونے میں لگے رہتے ہیں، مگر جب آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط جاری ہوتی ہے حکمران طبقے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ چائنہ ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا تھا۔ وہ دنیا پر حکمرانی کرنے جا رہا ہے۔ہم 77سال بعد بھی قرض ملنے پر خوشیاں مناتے ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے۔ قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو پھنے خان سمجھتا ہے۔ قانون کو پا?ں تلے روندنے والا خود کو بہادر اور طاقتور گردانتا ہے۔
حکمرانوں کے بچے اربوں پتی ہیں۔ غریب کا بچہ روٹی کے لیے ترستا ہے۔ حکمران طبقہ بڑھ چڑھ کر جھوٹ بولتا ہے۔ حکمران عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ تعلیمی نظام برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ صنعت کاروں نے H.E.C.سے یونیورسٹیاں منظور کرا لی ہیں۔ بخدا لاکھوں روپے لے کر بچوں کو گھروں میں ڈگریاں بانٹ رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ مقروض ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی؟ جب آپ سَر اْٹھا کر دوسرے سے بات نہیں کر سکیں گے تو دیگر معاملات تو بعد کی بات ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات حکومت خود ماننے کے لیے تیار نہیں تو عام شہری کیا کرے گا؟ بلاشبہ عدلیہ میں تقسیم ہے۔ حق اور سچ کی بات کوئی نہیں کرتا۔ اپنے اپنے مفادات کے لیے اپنی اپنی پارٹی کی بھرپور ترجمانی کی جاتی ہے۔ بانیانِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے ارشادات و فرمودات بے معنی ہو کررہ گئے ہیں۔ ہر پارٹی کے اراکین اپنی پارٹی کے قائد کی والدین سے بھی زیادہ پوجا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اْن ہی کی وجہ سے یہ لوگ کروڑوں پتی بن جاتے ہیں۔ اگر سب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں جا کرجائزہ لیا جائے تو ترقیاتی کام نفی میں ہوں گے۔
چند روز قبل شنگھائی تعاون کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ بہت اچھی بات ہے۔ جس میں چائنہ، روس سمیت دیگر ممالک نے شرکت کی۔ بلاشبہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت ہی اچھے ہیں۔ ہمارے حکمران بھی پاک چین دوستی شہد سے میٹھی اور ہمالیہ سے بلند کے نعرے لگاتے ہیں اور لگانے بھی چاہئیں، مگر ہمارے حکمرانوں نے اپنے گریبانوں میں کبھی جھانکنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ چائنہ ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا اور آج پوری دْنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے اورہماری حالت کیسی ہے؟ ان بدترین حالات کا ذمہ دار کون ہے؟