ایس سی او اور پاکستان

Oct 19, 2024

علی انوار

شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں سربراہی اجلاس دو روز جاری رہنے کے بعد اسلام آباد میں اختتام پذیر ہو گیا ہے جس میں چینی وزیراعظم اور بھارتی وزیر خارجہ سمیت روس،ایران ،قازقستان اور دیگر رکن ممالک کے سربراہان درجنوں مندوبین سمیت شریک ہوئے۔اس کانفرنس کا انعقاد پاکستان میں ہونا ہی اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور وہ لوگ جو پاکستان کو دنیا میں سفارتی تنہائی کا شکار کرنا چاہتے تھے انہیں منہ کی کھانا پڑی ہے اور دو دن جس طرح پاک فوج نے سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دیئے ہیں وہ بھی قابل تحسین ہے۔ ایس سی او کانفرنس 2025  کی سربراہی روس کے حوالے کرنے سے پہلے کانفرنس کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس کے مطابق غیر امتیازی اور شفاف عالمی تجارتی نظام کو ضروری قرار دیتے ہوئے یکطرفہ تجارتی پابندیوں کی مخالفت کی گئی اور خطے کو دہشت گردی،  ، علیحدگی پسندی اور انتہاپسندی سے پاک کرنے کا عزم کا اعادہ کیا گیا۔
 اعلامیہ میں تنازعات کا حل طاقت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے تجویز کیا گیا ہے اس کے ساتھ اقوام متحدہ سے کہا گیا ہے کہ وہ تنازعات کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔اعلامیہ کے متن میں انسداد دہشت گردی کیلئے انسانی وسائل کی منظوری بھی دی گئی۔ایس سی او کی رکن ریاستوں نے ڈویلپمنٹ بینک اور فنڈ بنانے کا فیصلہ بھی کیا جبکہ سیاسی،اقتصادی، تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ کانفرنس نے ڈبلیوٹی او قوانین مخالف یکطرفہ پابندیاں مسترد کرنے‘ خود مختاری کے احترام اور علاقائی سالمیت کے عزم کا اعادہ کیا۔پاکستان کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہونا ایک نہایت خوش آئند بات ہے کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے حقیقی گیم چینجر اور اہم سنگ میل ثابت ہو گا کیوں کہ رکن ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی روابط کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا ہے اور یقینا اس سے پاکستان کے اپنے دیگر ہمسائیہ و علاقائی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات پروان چڑھیں گے۔ کیوں کہ پاکستان اس وقت ایک مشکل معاشی دور سے نکلنے کی تگ و دو کر رہا ہے اور جس میں سیاسی عدم استحکام کے باوجود موجودہ حکومت کو کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں ہیں، اور ایسے موقع پر پاکستان کو نئی اقتصادی شراکت داری کی اشد ضرورت ہے اور اس کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم کا پلیٹ فارم پاکستان کیلئے بہترین موقع بھی ہے اور اس سے پاکستان کی معاشی سمت کو ایک نئی جہت بھی مل سکتی ہے۔ پھر چین کے ساتھ درجنوں معاہدے ہوئے ہیں چینی وزیراعظم نے پاکستان کے سب سے بڑے ایئر پورٹ گوادر ایئر پورٹ کا افتتاح بھی کیا ہے کیونکہ سی پیک کے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے لیکن دہشت گرد چینی انجینئرز پر حملے کر کے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے باوجود چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ چینی وزیراعظم نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران نہ صرف متعدد ایم او یو سائن کئے ہیں بلکہ دہشت گردوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی جو کوشش کر رہے ہیں وہ کامیاب نہیں  ہو گی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوں کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں جس پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے سربراہی اجلاس کے دوران بھی توجہ دلائی ہے کہ ایس سی او کے رکن ممالک افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کیلئے کام کریں اور اس کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں تا کہ خطے میں سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ایس سی او کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو خیالات کے تبادلے، بہترین طریقوں کا اشتراک کرنے اور ایسے ٹھوس ایکشن پلان بنانے کے لیے استعمال کریں جس سے ہماری معیشتوں اور معاشروں کو فائدہ پہنچ سکے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کو کثیرالجہتی کی روشنی قرار دیا۔
اس کثیر الجہتی روشنی سے فائدہ کیسے اٹھانا ہے اب اس پر ہمارے پالیسی سازوں کو کام کرنا چایئے کیونکہ ایس سی او کوئی معمولی تنظیم نہیں ہے اس میں چین، روس اور بھارت جیسے بڑے ممالک شامل ہیں اور آبادی کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اس تنظیم میں دنیا کی چالیس فیصد آبادی کے نمائندہ ملک موجود ہیں اور یوں کہیں کہ آدھی دنیا اس تنظیم کے زیر اثر ہے تو یہ غلط نہ ہو گا کیوں کہ دنیا کے سات ایٹمی طاقت کے حامل ممالک میں سے چار اس تنظیم کے رکن ہیں ۔
 اس لئے اس تنظیم کو نشستن، گفتن و برخاستن کی حد تک سمجھنا ایک غلط فہمی ہو گی، اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے جو تجاویز اعلامیہ کی صورت میں سامنے آئی ہیں، عالمی برادری کو بھی ان کو سنجیدہ لینا ہو گا کیوں کہ اقوام متحدہ اب دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی و مغربی اداروں کو چاہئے کہ ایشیا کے اس سب سے بڑے پلیٹ فارم سے کئے جانے والے مطالبات پر غور کرے اور ایس  سی او کے اعلامیے کے مطابق دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے موثر کردار ادا کرے اور ایس سی او کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ دنیا حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بن سکے۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں