شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوا جو پاکستان کیلئے بہت بڑااعزاز ہے۔ پاکستان ایک عرصے تک شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر رہا۔2017 میں رکنیت دی گئی۔اگلے سات سال میں پاکستان کو اس کی میزبانی اور سربراہی کا اعزاز حاصل ہو گیا۔یہ پاکستان میں ہونے والا ہے 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد سب سے بڑا عالمی ایونٹ ہے۔اس میں چار ایٹمی قوتیں پاکستان، بھارت، چین اور روس شریک تھیں جبکہ دو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ویٹو پاور رکھنے والے چین اور روس رکن ہیں۔ان چار ممالک کے علاوہ باقی ارکان میں ایران ،بیلاروس، تاجکستان ، قازقستان، کرغزستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ یہ طاقتور علاقائی تنظیم ہے۔ ویسے تو اجلاس کے دوران دنیا کی نظریں ہر ملک کے وفود اور ان کی سرگرمیوں پر تھیں۔سب سے زیادہ فوکس بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پر تھا جنہوں نے پاکستان پہنچنے سے قبل ہی یہ بیان داغ دیا تھا کہ وہ شنگھائی سمٹ میں چین کے ساتھ بات چیت کے لیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ امور پر کوئی بات نہیں ہوگی۔
نوائے وقت میں شائع ہونیوالے نصرت جاوید کے کالم میں ان کا کہنا ہے کہ سمٹ میں روس کے وزیراعظم 300 رکنی وفد کے ساتھ شریک ہوئے۔وزیراعظم میخائل میشوستن کے ساتھ اتنا بڑا وفد کس مقصد کے لیے آیا ؟نصرت جاوید صاحب کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے؟ روس سی پیک کا حصہ بھی بن رہا ہے۔ اس حوالے سے اور دیگر امور پر روس کی طرف سے ہر پہلو کا باریک بینی سے جائزہ لینا مقصود ہو سکتا ہے۔ امریکہ کو بھی شاید اتنے بڑے وفد کے ذریعے پیغام دیا گیا ہو کہ بھارت ہمیں چھوڑ کر امریکی کیمپ میں جا سکتا ہے تو پاکستان بھی ایسا فیصلہ لے سکتا ہے۔
وزیر خارجہ جے شنکر دو طرفہ معاملات پر بات کرنے کے انکار کی بات پر قائم نہ رہ سکے۔وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے مہمانوں کولنچ دیا گیا۔ اس میں وزیر خارجہ جے شنکر اور اسحاق ڈار کی اسی جگہ الگ سے ون ٹو ون ملاقات کا اہتمام کروا دیا گیا۔پاکستان کی طرف سے اس ملاقات کو ضروری کیوں سمجھا گیا۔اس ملاقات میں کیا راز و نیاز ہوئے۔اس میں کون سی ایسی بات تھی جس کو چھپایا جانا تھا؟؟؟ ایسی ملاقاتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔سجن جندال بھارت کے سٹیل ٹائیکون پاکستان آتے ہیں۔اسلام آباد سے لاہور کا سفر کر سکتے ہیں مگر وہ مری میں جا نکلتے ہیں۔ وہاں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ ملاقات بھی ون ٹو ون ہی تھی۔میاں نواز شریف پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم بنتے ہیں۔ اسی دوران نریندر مودی الیکشن میں کامیابی کے بعد وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہیں۔ ان کی حلف برداری کی تقریب میں میاں صاحب انڈیا جاتے ہیں۔ وہاں ان کی ایک بار پھر سجن جندال سے ان کے گھر میں ملاقات ہوتی ہے۔ اس ملاقات میں میاں صاحب پاکستانی ہائی کمشنر کو نہیں لے جاتے۔یہ وہی دورہ ہے جس میں پاکستان کے وزیراعظم کی طرف سے حریت کانفرنس کے کشمیری وفد سے ملاقات نہیں کی جاتی۔ایسی ون ٹو ون ملاقاتوں میں جو کچھ ہوتا ہے‘ کیا وہ وہیں پہ دفن ہو جاتا ہے ؟؟؟
1988 میں وزیراعظم راجیو گاندھی پاکستان آتے ہیں۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے وفود کی سطح پر ملاقات کے علاوہ ون ٹو ون ملاقات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل راجیو گاندھی کی خواہش پر پرائم منسٹر ہاؤس کی بھارتی خفیہ ایجنسی را ڈی بگنگ کرتی ہے تاکہ اندر کی بات باہر نہ جا سکے۔ملاقات کے ایک گھنٹے بعد صدر اسحاق خان کی ٹیبل پر جنرل اسلم بیگ وزرائے اعظم کے مابین ہونے والی گفتگو کی کیسٹ رکھ دیتے ہیں۔
سامنے کے منظر نامے کے پس منظر میں بھی بہت کچھ چل رہا ہوتا ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پر امن طریقے سے ہو گیا۔ اس کا سارے کا سارا کریڈٹ فوج ،پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے حکام اور اہلکاروں کو جاتا ہے۔ حکومت کی بات کی جائے تو اسے زیادہ فکر 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کی لاحق تھی۔26 ویں ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اسے منظور کروانے میں اتنی عجلت کیوں دکھائی گئی۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بلا لیے گئے تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن سے بات ہو چکی تھی لیکن عین موقع پر مولانا نے اس طرح حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کیا جس طرح حکومت چاہتی تھی۔یوں آدھی رات کو یہ ترمیم منظور ہوتے ہوتے رہ گئی۔اس کے بعد سے کل تک مولانا فضل الرحمن ترمیم کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کی توجہ کا مرکز و محور بنے ہوئے تھے۔ ادھر شنگھائی تنظیم اجلاس جاری تھا۔اکابرین اور عمائدین کی تقاریر ہو رہی تھیں‘ اْدھر مولانا فضل الرحمن کراچی میں بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے۔ ادھر اجلاس ختم ہوتا ہے اْدھر مولانا فضل الرحمن بلاول بھٹو زرداری لاہور میں میاں نواز شریف کے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔وزیراعظم صاحب بھی وہیں پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ رات گئے تک مذاکرات ہوتے ہیں مگرمکمل اتفاق رائے نہیں ہوتا کہ اگلے دن ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کر دی جائے۔ 16 اور 17 اکتوبر کی درمیانی رات کے اجلاس میں یہ اتفاق ضرور ہو جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کو بھی ترمیم میں ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔اگلے روز مولانا فضل الرحمن جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تحریک انصاف کے وفد سے ملنے کے بعد جو میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ اس سے جو پہلے اتفاق رائے ہوا تھا اس پر پانی پھرتا ہوا نظر آتا ہے۔مولانا شدید غصے میں کہتے ہیں ایک طرف حکومت ہمارے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے‘ دوسری طرف ہمارے ایک بندے کو ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اغوا کر لیا گیا ہے۔ دوسرے کو لالچ دیا جا رہا ہے۔ تیسرے کو اسی مقصد کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔یہ ہمارے ساتھ بدمعاشی ہو رہی ہے اور بدمعاشی کا جواب ہم بھی بدمعاشی دینا جانتے ہیں۔ اختر مینگل کو بھی گلہ ہے کہ ان کے دو سینیٹرز پردباؤ ڈالا جا رہا ہے۔مولانا فضل الرحمن کی کوششوں سے ترمیم پر اتفاق رائے پیدا ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ جانے حکومت کو کیا سوجھی کہ مولانا کو مخالف کیمپ میں دھکیل دیا۔حکومتوں کیلئے جب ادارے بھی ساتھ ہوں ایسی ترامیم منظور کروانا مشکل نہیں ہوتا مگر جو اتفاق رائے کے بغیر ترمیم منظور ہوگی وہ نہ صرف پائیدار نہیں ہوگی بلکہ سیاسی عدم استحکام کا باعث بھی بنے گی۔
٭…٭…٭