سب کو مل کے غربت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی: احسن اقبال۔
غربت ایسا مرض ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے :مرض بڑھتا گیا جون جوں دوا کی۔ہر حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان سے غربت کا خاتمہ ہو جائے۔اس کے لیے بہت سی لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ عوام کی غربت ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دوست ممالک سے بھی غریبوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کی خاطر قرض حاصل کیے جاتے ہیں۔جس سے غربت میں کمی آتی ہے لیکن جیسے ہی یہ قرض سود سمیت لوٹانے پڑتے ہیں تو دو قدم آگے ،چار قدم پیچھے کے مصداق غربت میں دو چند اور کبھی تو تین چارچند اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔اربوں کھربوں روپے کا لیا گیا قرض خرچ کہاں پہ ہوتا ہے۔
ہم کو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر ’’میر‘‘ کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
میروں اور امیروں کے محلات جگمگاتے رہتے ہیں جبکہ فقیروں کے گھروں میں لوڈ شیڈنگ نے اندھیرا کیا ہوتا ہے۔ سسٹم میں اندھیر نہ ہو تو لوڈ شیڈنگ کے باوجود بھی اندھیرے نہیں ہوتے۔غالباً حبیب جالب نے کہا تھا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پِھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقہء زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
نظام درست ہو جائے تو غربت کا خاتمہ اپنے آپ ہو سکتا ہے۔احسن اقبال مسلم لیگ ن کے چند ایک دانشوروں اور ہائیلی کوالیفائیڈ لوگوں میں شامل ہیں۔ان جیسے چند ایک اور نظام کو بدل سکتے ہیں۔قوم کو اسی کی ان سے امیدیں وابستہ ہیں۔ ورنہ قرضوں سے حالات بدلتے ہیں نہ ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل ہو سکتی ہے۔یہ صرف خود کو بہلانے کی باتیں ہیں۔بقول شخصے:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
٭…٭…٭
وفاقی حکومت کی وزارت سائنس وٹیکنالوجی ٹیکنالوجی کے متعدد محکموں کو بند یا ضم کرنے کی تجویز۔
سٹیل مل مکمل طور پر ڈوب چکی ہے۔ پی آئی اے اور ریلوے بھی خسارے میں جا رہی ہیںجبکہ پاکستان میں چلنے والی کئی نجی ایئر لائنز اور ٹرینیں اتنے منافع میں جا رہی ہیں کہ چند سال بعد ان کے جہازوں اور ٹرینوں کی تعداد دو تین گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں سرکاری محکموں میں تھوک کے حساب سے بلا ضرورت بھرتیاں کر لی جاتی ہیں۔ ایسی بھرتیاں پورے محکمے کو ادارے کو ڈبو کے رکھ دیتی ہیں۔وزارتوں کی بات کی جائے تو ایک موقع پر پاکستان میں وزرا کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ تھی۔وزارتوں کے حساب سے وزیر نہیں بنائے گئے بلکہ وزیروں کے لیے وزارتیں تخلیق کی گئی تھیں۔ اب وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ سے متعلق اعلی اختیاراتی کمیٹی کو ایک ذیلی کمیٹی نے وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی میں متعدد کم کارکردگی کے حامل اداروں کو یا دوسرے محکموں کے ساتھ ضم کرنے کی سفارش کی ہے۔ان سفارشات میں پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور کونسل فار ورکس اینڈ ہاسنگ ریسرچ کو بند، پاکستان کونسل فار رینیوایبل انرجی ٹیکنالوجیزکو ایک اور ادارے میں ضم اور وزارت تعلیم کو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی زیر نگرانی کام کرنے والی یونیورسٹیوں میں منتقل کرنا شامل ہے۔اس طرح دیگر بھی کہیں وزارتیں ہیں جن کو ایک دوسرے میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ایسی خبریں آتی ہیں تو ملازمین فوری طور پر بغیر کسی تصدیق کے کہ ان پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں احتجاج کا اعلان کر دیتے ہیں۔وزارتیں ایک دوسرے میں ضم ہوں گی یا بڑی وزارت چھوٹی وزارتوں کو ہضم کر لے گی تو اس کا عام ملازم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا فرق پڑے گا تو بڑوں پر پڑے گا۔ دو وزیروں کی بجائے ایک وزیر ہو جائے گا۔ دو سیکرٹریوں اور کئی ڈائریکٹروں کی جگہ چند ایک سے کام چلایا جائے گا۔اس پالیسی کا نفاذ ہو جائے تو یہ حکومت کی بہترین پالیسی گنی جائے گی۔
٭…٭…٭
بال ٹمپرنگ کے بعد ٹینڈٹیمپرنگ۔
کرکٹ میں بال ٹمپرنگ کی سخت ممانعت ہے۔مگر یہ ممانعت ہمیشہ سے نہیں ہے جس طرح کبھی کرکٹ میں چھ کی چھ گیندوں پر بائولر بونسر مار سکتا تھا۔جب ویسٹ انڈیز کے تیز ترین بائولروں نے بیٹس مینوں کو لٹانا شروع کر دیا تو بونسر کی تعداد صرف ایک اوور میں ایک کر دی گئی۔کرکٹ میں اس طرح قانون بدلتے رہتے ہیں۔کبھی باؤلر اپنے دانتوں سے گیند کو کاٹ لیا کرتے تھے یہ بھی ٹیمپرنگ تھی لیکن اس دور میں اس پر پابندی نہیں تھی پھر کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کے ڈھکن کو بھی ٹمپرنگ کے لیے استعمال کیا جانے لگا تو ٹیمپرنگ پر پابندی لگنی ہی تھی۔گیند کو شائن کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ باؤلر گیند کا ایک حصہ اپنے ٹراؤزر سے رگڑ کر اسے شائن یعنی نرم و ملائم کر لیتے ہیں۔ اس کے مطابق فاسٹ باؤلر گیند کو سوئنگ کر لیتا ہے۔اسے بھی کچھ لوگوں کی طرف سے ٹیمپرنگ کہہ دیا جاتا ہے۔ اب آجاتے ہیں ٹنڈ ٹیمپرنگ کی طرف۔ پاکستانی ٹیم ملتان میں انگلینڈ سے پہلا کرکٹ میچ برے طریقے سے ہار گئی اور اگلے میچ میں پاکستان نے یہ بدلہ چکا دیا۔ یہ میچ پاکستان کی طرف سے بڑے مارجن سے جیت لیا گیا۔اس میچ میں عجیب قسم کی ٹیمپرنگ دیکھی گئی۔ میچ کے چوتھے روز پاکستان کی وکٹیں دھڑا دھڑ گر رہی تھیں۔اس کی وجہ ٹنڈ ٹیمپرنگ بتائی گئی۔ انگلش فیلڈر نے سپنر چیک لیچ کی ٹنڈ جس پر پسینہ آیا ہوا تھا،گیند کو اس میں بھگویا اور اس کے بعد اپنے ٹراؤزر سے رگڑ کر اس میں شائننگ پیدا کی۔ اس کے بعد اوپر تلے مزید دو وکٹیں گر گئیں۔ پاکستان کی وکٹیں دھڑا دھڑ گریں تو اسی روز میچ ختم ہونے سے تھوڑی دیر قبل اور اگلے روز میچ شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد انگلینڈ کی وکٹیں پت جھڑ کی طرح گرتی چلی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانیوں نے گیند کو کسی ٹنڈ پر رگڑ کر ٹیمپر نہیں کیا تھا۔
٭…٭…٭
سعودی عرب میں نسوار کے کارخانے پر چھاپا 217 کلو نسوار ضبط۔
پاکستان میں سگریٹ اور نسوار کے نشے میں زیادہ فرق نہیں سمجھا جاتا۔نہ ہی ان دونوں کی نوشی اور خوری کو معیوب سمجھا جاتا ہے مگر سعودی عرب میں نسوار کو منشیات میں شامل کیاجا چکا ہے۔سعودی عرب میں کسی سے اگر ہیروئن برآمد ہو جائے تو اس کے لیے کڑی سزا مقرر ہے اور وہی سزا اس کے لیے بھی ہے جس کے پاس نسوار ہو۔پاکستان میں چائے اور سگریٹ نوشوں کے ساتھ ساتھ نسوار خوروں کی بات کی جائے تو یہ کئی دن کی بھوک تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن چائے سگریٹ اور نسوار کے چسکے سے دور نہیں رہ سکتے۔ہمارے ملک میں ہیروئن چرس بھاری مقدار میں پکڑی جاتی ہیں تو ان نشوں کے ہادی سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ضبط کی گئی منشیات کہاں رکھی گئی ہیں تاکہ وہاں سے چلو بھر نہیں تو چٹکی بھر تو اڑا لی جائے۔ اس کو وہ چوری نہیں سمجھتے ان کا یہ فلسفہ ہے کہ کھانے پینے کی چیز کی چوری چوری نہیں ہوتی۔سعودی عرب میں کارخانے پر چھاپہ مارا گیا۔کارخانہ بذات خود غیر قانونی تھا اور اس میں جو کچھ بن رہا تھا وہ سخت سزا کے جرم کے زمرے میں آتا ہے۔کارخانے داروں وہاں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن وہاں کے نسوار پسند اس جستجو میں ہیں کہ ضبط کرنے کے بعد یہ نسوار رکھی کہاں پہ گئی ہے تاکہ اس میں سے چٹکی بھر اٹھا لی جائے۔
٭…٭…٭