کسی بھی انسان کی شخصیت کو نکھارنے کے لیے ضبطِ نفس ایک اہم خوبی ہے ۔ضبطِ نفس کی کمی انسان میں بہت بڑی کمزوری ہوتی ہے جو اس کی شخصیت کو گہنا دیتی ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ دنیا میں سب سے اعلیٰ و ارفع شخصیت ہیں اور دنیا کے سب سے عظیم ترین رہنما ہیں۔آپؐ کا ضبطِ نفس بھی ساری کائنات سے زیادہ تھا ۔ خوشحال زندگی گزارنے کے لیے ضبطِ نفس بہت ضروری ہے ۔ اگر انسان میں ضبطِ نفس نہ ہو تو اس کی فطری صلاحیت بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ اگر انسان اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھے گا تو کوئی دوسرا اس پر قابو پا لے گا اور جوشخص اپنے آپ پر قابو نہیں پا سکتا تو پھر اس میں اور جانور میں کیا فرق رہے گا ۔ جو شخص اپنی قیادت خود نہیں کر سکتا وہ دوسروں کی قیادت کیسے کر ے گا ؟
ضبطِ نفس سے مراد یہ ہے کہ جب بھی حق اور سچ کی راہ میں سہل پسندی ، بزدلی ، خود پسندی یا کوئی نفسانی خواہش حائل ہو تو انسان اسے ٹھکراکر صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہے۔ قرآن مجید میں اس کے لیے مختلف الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ سب سے پہلے تقویٰ، تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو نا جائز خواہشات اور گناہوں سے بچائے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’بے شک سب سے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے‘‘۔ اس کے بعد تزکیۂ نفس، تزکیۂ نفس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ناجائز خواہشات اور گناہوں سے پاک رکھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ بے شک فلاح پا گیا وہ شخص جس نے اس (نفس ) کو (گناہوں سے ) پاک کر لیا ۔ ‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے ‘۔
انسان کی اپنی خواہشات پر قابو پانے کو حضور نبی کریمﷺ نے بڑا جہاد قرار دیا ہے ۔ حضرت ابوذر ؓ نے آپؐ سے عرض کی کون سا جہادافضل ہے تو آپؐ نے فرمایا: افضل جہاد یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس اور اپنی خواہش کے خلاف جہاد کرے ۔ (کنزالعمال )
ضبطِ نفس ہمیں نظم و ضبط کی پابندی سکھاتا ہے اور نظم و ضبط کامیابی کی کنجی ہے ۔ انسان اگر کامیابی حاصل کر نا چاہتا ہے تو اس کی اپنے نفس پر گرفت اتنی مضبوط ہو کہ اس کی نفسانی خواہشات اس کے راستے کی دیوار نہ بن سکیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: تمھارے صاحب (حضرت محمدﷺ) نہ کبھی راہ حق سے ہٹے اور نہ کبھی راہ حق گم کی ۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے بلکہ ان کا کلام صرف وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے ‘۔ یعنی کہ حضور نبی کریمﷺکا اپنی خواہشات پر اتنا قابو تھا کہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتے تھے بلکہ صرف وہی بتاتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا تھا ۔