دہشت گرد اسرائیل کی کارروائی حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار شہید

Oct 19, 2024

اداریہ

غزہ میں ناجائز صہیونی ریاست کی دہشت گردی جاری ہے۔ دہشت گردی کی ایک کارروائی میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو شہید کردیا گیا ہے۔ غاصب اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی شین بیت کی جانب سے جاری ایک بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ بدھ کے روز جنوبی غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی میں یحییٰ سنوار کو شہید کر دیا گیا۔ اسرائیل کو دہشت گردی کے اسلحہ فراہم کرنے والے امریکا نے بھی حماس کے نئے سربراہ کی شہادت کی تصدیق کر دی ہے۔ اس حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہو گیا کہ یحییٰ سنوار اب نہیں رہے۔ اسرائیلی وزیراعظم سے یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ کے خاتمے پر جلد بات کروں گا۔ حماس 7 اکتوبر جیسے حملے کرنے کے قابل نہیں رہی۔ یحییٰ سنوار کی شہادت سے متعلق بات کرتے ہوئے امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ غزہ جنگ سے مشرق وسطیٰ میں بہت زیادہ عدم استحکام پیدا ہوا ہے، یہ لمحہ اب حتمی طور پر جنگ روکنے کا موقع دے رہا ہے۔
ادھر، امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کے ساتھ دہشت گرد ریاست اسرائیل کے غزہ اور لبنان میں وحشیانہ حملے جاری ہیں۔ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں صہیونی حملوں میں 65 فلسطینی شہید اور 140 زخمی ہو گئے جبکہ جنوبی لبنان میں میئر سمیت کم از کم 27 افراد شہید اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے۔ غزہ میں وزارت صحت کی جانب سے بھی شہادتوں اور زخمی ہونے والے افراد کی تصدیق کی گئی ہے۔ دوسری جانب، شمالی غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی تیرھویں روز میں داخل ہو گئی ہے۔ محکمہ شہری دفاع کا کہنا ہے کہ جبالیہ مہاجر کیمپ کی ناکہ بندی کے باعث تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبی اور گلیوں میں موجود درجنوں لاشیں اٹھائی نہیں جا سکی ہیں۔ واضح رہے کہ 13 روز سے جاری اسرائیلی ناکہ بندی کے نتیجے میں 2 لاکھ سے زائد فلسطینی کھانے، پانی اور ادویہ کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
 غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس برطانیہ، فرانس اور الجزائر کی درخواست پر ہوا۔ دنیا کی آنکھوں میں ایک بار پھر دھول جھونکنے کے لیے اجلاس کے دوران امریکی سفیر نے غزہ میں اسرائیل کی فاقہ کشی پالیسی کو خوفناک اور ناقابل قبول قرار دیدیا۔ امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کے عالمی اور امریکی قانون کے تحت مضمرات ہوں گے۔ امریکی سفیر سفیر نے مزید کہا کہ خوراک اور دیگر امداد فوری طورپر غزہ میں پہنچانی چاہیے جبکہ حفاظتی ٹیکوں، انسانی امداد کی ترسیل اور تقسیم کے لیے غزہ جنگ میں وقفے ہونے چاہئیں۔ غزہ کی امداد سے متعلق اقوام متحدہ کی قائم مقام سربراہ جوائس مسویا نے سلامتی کونسل اجلاس میں کہا کہ غزہ میں حالات ناقابل برداشت ہیں، یو این امدادی اداروں کو بھی رسائی نہیں دی جارہی۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے بے بسی کا یہ اظہار بنیادی طور پر عالمی برادری کو یہ بتانے کے لیے مترادف ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے اس کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں، لہٰذا اس کی جانب سے کسی ٹھوس عملی اقدام کی توقع نہ رکھی جائے۔ اقوامِ متحدہ نے اس سلسلے میں پہلی بار اپنی بے بسی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے بھی اس کے مختلف عہدیداروں کے بیانات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اس کا کردار ایک کٹھ پتلی کے سوا اور کچھ نہیں۔
اجلاس میں فلسطینی مستقل مندوب نے کہا کہ فلسطینی اور لبنانی عوام اسرائیل کو ملنے والی چھوٹ کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اسرائیلی حملے جنگی جرائم ہیں، انھیں روکا جانا چاہیے۔ اس موقع پر چینی مستقل مندوب نے کہا کہ امریکا اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیل کو 17 ارب ڈالر سے زائد فوجی امداد دے چکا، کونسل کو دو ریاستی حل کے امکانات کا احیاء اور تحفظ کرنا چاہیے، غزہ میں جنگ بندی کی جائے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل ہونا چاہیے۔ امدادی کاموں کے حوالے سے خدمات فراہم کرنے والے ادارے انروا نے اس موقع پر بتایا کہ برطانیہ اور فرانس نے بھی اس ادارے کو غزہ میں امدادکی فراہمی کے لیے رسائی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مغربی ممالک کا دوغلا پن اس صورتحال سے بھی پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو اس نوعیت کے مطالبات کیے جارہے ہیں اور دوسری جانب دہشت گرد صہیونی ریاست کو ہر قسم کا تعاون مہیا کیا جارہا ہے۔
یحییٰ سنوار اور ان سے پہلے حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ جیسے افراد کی شہادت کے لیے غاصب صہیونی ریاست سے مسلم ممالک کے وہ حکمران ذمہ دار ہیں جو خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء سے لے کر اب تک امریکا، برطانیہ، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک کی اکثریت واضح طور پر دہشت گرد اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے اور غزہ میں بسنے والے مظلوم فلسطینیوں پر برسانے کے لیے گولا باردو اور اسلحہ بھی انھی ممالک کی طرف سے مہیا کیا جارہا ہے۔ مسلم ممالک نے غزہ کے باسیوں کو بچانے کے لیے کردار کیا ادا کرنا ہے، ان میں سے کئی ایسے ہیں جو دہشت گردی کے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور اسی مقصد کے لیے انھوں نے اپنے ہاں امریکی دفاعی نظام نصب کرا رکھا ہے تاکہ ناجائز صہیونی ریاست پر اگر کسی طرف سے حملہ ہو تو اس کا توڑ کیا جاسکے۔ خطے میں موجود مسلم ممالک کے حکمرانوں کا یہ خیال ہے کہ غاصب صہیونی صرف فلسطینیوں کے علاقے ہتھیانا چاہتے ہیں لیکن گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان کا ارادہ یہیں رکنے کا نہیں ہے۔ امریکی دفاعی نظام نصب کرانے والے ممالک تیار رہیں کیونکہ اگلی باری ان میں سے کسی کی بھی ہوسکتی ہے۔

مزیدخبریں