شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور علاقائی امن و امان کے حوالے سے اہم پہلو سامنے آئے ہیں۔ یہ فورم دونوں ممالک کو مل بیٹھ کر نہ صرف اقتصادی اور سکیورٹی تعاون پر بات کرنے کا موقع دیتا ہے بلکہ امن و امان کے مسائل پر بھی مکالمے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ وفد کے ساتھ پاکستان پہنچے تھے، یہاں ان کی پاکستانی وزیر خارجہ سے ایک الگ ملاقات بھی ہوئی یہ ملاقات خاصی خبروں میں رہی کیونکہ اس ملاقات میں آئندہ برس پاکستان میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آئی ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت، پاکستانی حکومت کا شکریہ اور اس کے بعد پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے بھارتی ٹیم کی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت اور بھارت کو بجلی بیچنے کے بیان کو دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ ایس سی او کھیلوں کا انعقاد کرنے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کو تلخ ماضی پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کی تجویز دیتے ہوئے پاکستان کی اضافی بجلی بھارت کو بیچنے کی تجویز بھی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو بجلی چاہیے، پاکستان کے پاس بہت بجلی ہے ، یہ بجلی ضرور بھارت کو بیچنی چاہیے، پاکستان کی طرف سے بھارت کو سستی بجلی بیچنے کے حق میں ہوں۔ صرف موسمیاتی تبدیلی پر تعاون نہیں، دونوں ملکوں کو تجارت شروع کرنی چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرنا چاہیے، تعلقات اچھے ہوجائیں تو ضرورت کا سامان دو گھنٹے میں پاکستان آ سکتا ہے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنا چاہیے، بھارتی کرکٹ ٹیم سے پوچھیں تو وہ بھی کہیں گے پاکستان آ کر کھیلنا ہے، کرکٹ کھیلنے پر راضی بھارتی کرکٹ ٹیم کو اجازت دینے والے اجازت نہیں دیتے، بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان آئے گی تو کرکٹ کے لیے بہت اچھا ہوگا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اگر ایس سی او پر پاکستان آتے تو بہت اچھا ہوتا۔ وزیر خارجہ آئے یہ بھی اچھی بات ہے، ایس سی او سے پاک بھارت تعلقات کی اچھی شروعات ہو سکتی ہے۔
میاں صاحب کے خیالات اپنی جگہ ہیں لیکن کیا مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر تجارتی تعلقات بحال ہو سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین بنیادی مسئلہ تو مقبوضہ کشمیر ہے اور کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو موجودہ دور کی سب سے بڑی انسانی جیل میں قید کرنے والے بھارتی حکمرانوں کو مقبوضہ وادی میں ڈھانے والے مظالم کو نظر انداز کر کے کیا ہم تجارتی تعلقات شروع کر سکتے ہیں۔ مانا کہ کسی جگہ سے شروعات ہوتی ہے لیکن کیا کشمیری شہدا کے خون کا سودا کر کے ہم تجارت شروع کر سکتے ہیں۔ ایک طرف بھارت پاکستان میں امن عمل کو سبوتاژ کرنے اور دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے سازشیں کرتا ہے تو دوسری طرف ہم بنیادی مسائل حل کیے بغیر کیسے تجارتی تعلقات کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ بھارت کو بجلی چاہیے لیکن پاکستان کو صرف پیسے نہیں چاہیں بلکہ پاکستان کشمیریوں کی تحریک آزادی کا حمایتی اور بھارتی مظالم کا مخالف ہے، پاکستان ہر سطح پر مقبوضہ وادی میں بھارتی ظلم و بربریت کو بے نقاب کرتا ہے تو کیا بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات شروع کرنے کے لیے پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ہو گا، یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا بنیادی مقصد علاقائی سطح پر امن و استحکام کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسائل کا سامنا ہے، اور SCO کے ذریعے دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں تاکہ دہشت گردی کے مشترکہ خطرات سے نمٹا جا سکے۔
ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان ریجنل اینٹی ٹیررسٹ اسٹرکچر جیسے پلیٹ فارم پر تعاون کیا جاتا ہے، جہاں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خاتمے اور خطے میں امن کے قیام پر بات چیت کی جاتی ہے۔ یہ پلیٹ فارم پاکستان اور بھارت کے لیے بھی اہم ہو سکتا ہے، تاکہ دونوں ممالک اپنے مشترکہ مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکیں۔
افغانستان میں موجودہ صورتحال خطے کے امن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے لیے ایس سی او اجلاس کے بعد دونوں ممالک افغانستان کے استحکام اور سکیورٹی کی صورتحال پر بات چیت کر کے اس حوالے سے مشترکہ حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔ افغانستان میں امن پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے اہم ہے، کیونکہ وہاں کی بدامنی کا اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔
کشمیر کے تنازعے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مسلسل تناؤ رہتا ہے، جو خطے کے امن و امان کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ جیسے فورمز پاکستان اور بھارت کو سفارتی سطح پر ایک دوسرے سے مذاکرات کے لیے قریب لا سکتے ہیں، تاکہ اس تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کا دائرہ کار براہ راست کشمیر تنازعے کے حل تک محدود نہیں ہے، لیکن یہ فورم دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے اور امن کی راہوں کی تلاش میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپیں امن کے لیے ایک مستقل چیلنج ہیں۔ ایس سی او اجلاس میں بھارت کی شرکت کے بعد رکن ہونے دونوں ممالک کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنے سرحدی تنازعات پر بات چیت کریں۔ یہ دونوں ممالک کے لیے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کے مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کی موجودگی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے قیام میں ایک ثالثی کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ روس اور چین کے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اور یہ طاقتیں SCO کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے دونوں ممالک کو مذاکرات کے راستے پر لاسکتی ہیں۔ چین خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے ساتھ اقتصادی اور سکیورٹی تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے، اور SCO کے ذریعے وہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تاکہ علاقائی استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
اس فورم کے ذریعے پاکستان اور بھارت انسانی امداد اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبے میں تعاون کر سکتے ہیں، جو دونوں ممالک کے عوام کے درمیان اعتماد کو بڑھا سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم پاکستان اور بھارت کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے جہاں دونوں ممالک علاقائی امن و امان، سکیورٹی اور دہشت گردی جیسے اہم مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں، SCO جیسے فورمز کے ذریعے سفارتی دروازے کھلے رکھنے اور امن کی طرف قدم بڑھانے کا موقع موجود ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد میاں نواز شریف کی طرف سے تجارت کی پیشکش کو اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے لیکن یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ بنیادی مسائل حل کیے بغیر کوئی بھی منصوبہ پائیدار نہیں ہو سکتا۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ایک طرف کر کے تجارتی و ثقافتی اور کھیلوں کے تعلقات کو بحال کرنا کشمیریوں کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔