اسلام آباد (عترت جعفری ) آئین میں 26 ویں ترمیم کے مجوزہ بل جو ابھی کابینہ سے منظور ہونے کے بعد باضابطہ شکل اختیارکرے گا، تفصیلات کے مطابق آئین میں ایک نئے آرٹیکل 9 اے کا اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے تحت یہ کہا گیا ہے کہ ہر شخص صاف ستھرے صحت مند اور پائیدار ماحول کا استحقاق ہے، آئین کے آرٹیکل48 میں ترمیم تجویز کے تحت کابینہ یا وزیراعظم کی طرف سے صدر کو کوئی ایڈوائس دی جائے تو اس پرکسی ٹریبونل یا کسی اتھارٹی کی طرف انکوائری نہیں ہو سکے گی، آئین کے ارٹیکل 111 میں ترمیم ہوگئی، ایڈوکیٹ جنرل کے الفاظ کے بعد ایڈوائزر کالفظ شامل کیا جائیگا، آرٹیکل 175 اے میں ترمیم سے اس کی کلاز ون میں شریعت کورٹ کے الفاظ کے بعد ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کے تجزیہ کے الفاظ شامل کیا جائیگا، سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے جو کمیشن بنایا جائے گا اس میں چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل پاکستان، پاکستان بار کی طرف سے نامزد ایڈووکیٹ جن کا تجربہ کم از کم 15 سال کا ہو جبکہ سینٹ سے ٹریژری بینچ سے تعلق رکھنے والے دو ارکان اور قومی اسمبلی میں ٹریری بینچز سے تعلق رکھنے والے دو ارکان شامل ہوں گے۔ اپوزیشن سے بھی دو ارکان لیے جائیں گے جن میں سے ایک کا تعلق سینٹ اور دوسرے کا قومی اسمبلی سے ہوگا۔ حکومتی ارکان کا انتخاب لیڈر آف دی ہاؤس کریں گے اور اپوزیشن ارکان کی نامزدگی لیڈر اپوزیشن لیڈرکریں گے، چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا، سپریم کورٹ کے تین موسٹ سینیئر ججز میں سے کمیٹی ایک نام کی سفارش کرے گی۔ وزیراعظم اس نام کو صدر مملکت کو تعیناتی کے لیے بھیج دیں گے۔ تاہم اگرجس فرد کو چیف جسٹس نامزد کیا جائے اور وہ اس منصب کو قبول نہ کریں تو کمیٹی دوسرے سینئر ترین جج پر غور کرے گی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی کے اٹھ ارکان شامل ہوں گے سینٹ کے چار ارکان شامل ہونگے۔ اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو کمیٹی سینٹ کے ارکان پر مشتمل ہوگی، ہر پارلیمانی پارٹی کو اس کمیٹی میں متناسب نمائندگی دی جائے گی۔ ہر پارلیمانی پارٹی کا لیڈر رکن نامزد کرے گا۔جوڈیشل کمیشن اپنے ممبرشپ کی اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ یہ کمیشن ہائی کورٹ کے ججزکی کارکردگی کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لے گا، اگر چیئر پرسن یہ اجلاس نہ بلائیں تو سیکرٹری میٹنگ کو سات دن کے اندر منعقد کرے گا،غیر ملکی شہریت کے حامل کو سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا جا سکے گا صرف پاکستانی جج بن سکیں گے،ائین کے ارٹیکل 179 میں ترمیم کی تجویز کے مطابق چیف جسٹس اف پاکستان کے منصب کی معیاد تین سال ہوگی تاہم اگر وہ 65 سال کی عمر تک تین سال کی معیاد پوری ہونے سے پہلے پہنچ جاتا ہے یا استعفی دے دیتا ہے یا اسے ہٹا دیا جاتا ہے،سپریم کورٹ کے متعدد کانسٹیٹیوشنل بینچز ہوں گے،ان بینچز کے ججز کی شرائط جوڈیشل کمیشن اف پاکستان طے کرے گا،ان بینچز کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی بنچ ما سوائے ائینی بینچز کے، سپریم کورٹ کی ائین کے ارٹیکل 184 کے تحت اوریجنل دائرہ اختیار کو استعمال نہیں کرے گا،اور نہ ہی ائین کے ارٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کے ایڈوائزری دائرہ اختیار کو بروئے کار لائے گا،کانسٹیٹیوشن بینچ پانچ ججز سے کم نہیں ہوگا،ان کے نامزدگی تین سینئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، ،ایسے تمام معاملات جو اس وقت سپریم کورٹ اف پاکستان کے پاس زیر سماعت ہیں ائینی بینچز بنتے ہی انہیں منتقل ہو جائیں گے مجوزہ ایک اور ترمیم کے تحت تمام ہائی کورٹس کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی درخواست میں درج مندرجات سے ہٹ کر کوئی حکم ڈیکلریشن نہ دیں،بل میں جوڈیشل کونسل کے اختیارات کو واضح کیا گیا ہے،کونسل سپریم کورٹ اف پاکستان اور ہائی کورٹس کے ججوں کے لیے کوڈ اف کنڈکٹ جاری کریں گی۔