اسلام آباد (خبرنگار) سینٹ اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات کی تقریر پر اپوزیشن اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی حکومتی اتحادی جماعت نے شدید احتجاج کیا۔ بلوچستان کے سینیٹرز نے وزیر اطلاعات کو بلوچستان کے حالات سے بے خبر قرار دیتے ہوئے وزیر داخلہ کو ایوان میں بلانے کا مطالبہ کردیا۔ چیئرمین سینٹ نے بلوچستان میں ہونے والے واقعات پر وزیر داخلہ کو طلب کر لیا۔ اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے کہاکہ کچلاک میں ایک واقعہ ہوا ہے جس میں پولیس نے ایک گھر کے اندر داخل ہوکر چادر اور چار دیواری کو پامال کیا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اتنی پولیس گھر میںکیوں گھسی ہے۔ سرکاری اداروں نے ایک گاڑی کیلئے یہ چھاپہ مارا ہے اور وہ گاڑی بھی نہیں ملی ہے۔ موسی خیل اور دکی کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ آئی جی بلوچستان یہ کیا کر رہے ہیں کہ لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ اس معاملے کو داخلہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ بلوچستان میں بار بار معطل ہونے والے افسران کو تعینات کیا گیا ہے اور بھتہ خوری کر رہے ہیں۔ سینیٹر بلا ل احمد خان نے کہاکہ ایسے تمام واقعات کی پرزور مذمت کرتا ہوں یہ حرکتیں کون کر رہا ہے اور ان کے کیا مقاصد ہیں لگتا ہے کہ صوبے کو دن بدن آگ کی جانب دھکیلا جارہا ہے یہ حرکتیں بلوچستان کو کس جانب لیکر جارہی ہے اور عوام کے اضطراب کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا۔ سینٹر دنیش کمار نے کہاکہ دکی میں 21کان کنوں کی شہادت پر پوری قوم افسردہ ہے سندھ کے تین اضلاع میں کچے کے ڈاکوئوں نے لوگوں کی زندگی حرام کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم ان ڈاکوئوں کو کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں ۔تین اضلاع میں رینجرز تعینات سندھ کی کرپٹ پولیس کو ہٹایا جائے تاکہ اقلیتی برادری کو سکون ہو۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہاکہ امن و امان کے معاملات صوبوں کی ذمہ داری ہے تاہم وفاقی حکومت نیشنل ایکشن پلان کے مطابق سمگلنگ سمیت دیگر بڑے بڑے معاملات کو حل کرنے کیلئے صوبائی حکومت کی مدد کرتی ہے۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد وفاق نے صوبوں کے ساتھ مل کر ایک قومی پالیسی بنائی۔ علمائے کرام نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرکے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا ۔ کچھ لوگوںنے کہاکہ یہ تو بہت غلط ہوا اور طالبان کو شہری علاقوں میں بسایا گیا بتایا جائے کہ فوج نے اتنی قربانیاں کس کیلئے دی ہیں۔ یہ بگاڑ کس نے اور کب پید ا کیا گیا یہ دہشت گرد کبھی بلوچستان اور کبھی خیبر پختونخوا میں حملے کرتے ہیں۔ سی ٹی ڈی کس نے قائم کرنی تھی اور یہ پنجاب میں کیوں قائم ہوئی۔ آج کوئٹہ اور خیبر پختونخوا سیف سٹی کیوں نہ بن سکے انہوں نے کہاکہ پنجاب میں فرانزک لیبز قائم ہیں یہ دیگر صوبوں میں کیوں نہ ہوسکی ہے، دکی کا واقعہ افسوسناک ہے وزیر اعلی بلوچستان ایک قابل وزیر اعلی ہیں ہمیں ان پر اعتماد ہے اور ان کے ساتھ وفاق کا مکمل تعان ہے انہوںنے کہاکہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو بجٹ ملتا ہے مگر 2018کے بعد سے نیشنل ایکشن پلان کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف نے سیاسی مخالف کے گھر جاکر ان سے تعزیت کی۔ کچے کا مسئلہ صرف سندھ میں نہیں ہے بلکہ پنجاب میں بھی ہے اس کیلئے پولیس کو اے پی سی دی گئی اور ان کو ٹریننگ دی گئی تاکہ دونوں اطراف پر مسئلے کو حل کیا جاسکے کس نے کیا کس نے فریال تالپور کو چاند رات پر گرفتار کیا ۔کس نے مریم نواز کے کمروں کے دروازے توڑے ۔یہاں پر والدہ کی میت پڑی تھی اور جج کہہ رہا تھا کہ جرح مکمل کرنی ہے۔ شہباز شریف کے گھر کا گھیراؤکس نے کیا ،جہانگیر ترین اور علیم خان کے گھروں پر کس نے حملے کئے بانی پی ٹی آئی نے جو بویا تھا وہی کاٹ رہے ہیں ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینٹر منظور کاکڑ نے کہاکہ ہم نے جو کہا وزیر اطلاعات نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے انہوںنے کہاکہ یہاں پر نیشنل ایکشن پلان پر بات ہوئی ہے کیا آئی جی کا اختیار صوبے کے پاس ہے یا مرکز کے پاس ہے۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے افسران کی تذلیل کی جارہی ہے سینٹر عمر فاروق نے کہاکہ وزیر داخلہ کا جواب اگر وزیر اطلاعات دے رہے ہیں تو پہلے بلوچستان کے حوالے سے حالات کا پتہ تو کرلیں پنجاب سے ریٹائرڈ افسران کو بلوچستان پر مسلط کیا گیا ہے اس معاملے پر وزیر داخلہ کو بلائیں کیا سینٹ وزیر داخلہ کو نہیں بلا سکتی ہے پنجاب میں میڈیا پرسنز کو کھلم کھلا دھمکیاں دی گئیں اس کا کیا حل نکالا ہے چیئرمین سینٹ نے کہاکہ اس معاملے پر وزیر داخلہ ایوان میں بریفنگ دیں گے ایوان بالا میں سینٹر دنیش کمار نے سندھ کے علاقے سے اغوا ہونے والی پریا کماری کو بازیاب کرنے کی اپیل کی ہے ڈپٹی چیرمین سینٹ نے معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیاایوان بالا آئینی ترامیم پر جے یوآئی کے سینٹر مولانا عطاالرحمن پھٹ پڑے انہوں نے کہاکہ اگر دھونس اور زبردستی کے زریعے آئین میں ترامیم حکومت کی خواہش ہے تویہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی سینٹر عرفان الحق صدیقی نے کہاکہ آئینی ترامیم میں جے یوآئی سمیت اپوزیشن کو بھی ساتھ لیکر چلنے کی خواہش ہے ۔ ایک ترمیم کیلئے کون کونسے حربے استعمال کئے جارہے ہیں کیا سینٹر شکور خان کے ساتھ ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہورہا ہے سینٹر بلال احمد خان نے کہاکہ او لیول کی اردو کی کتاب جس کو شازیہ اسلام نامی خاتون نے لکھا ہے اس کتا ب میں خاتون نے پشتون قوم جس سے میرے سمیت اس چھت کے نیچے بہت سارے لوگوں کا تعلق ہے کے بارے میں نازیبا باتیں لکھی ہیں انہوںنے کہاکہ کسی قوم کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرنا کسی طور بھی جائز نہیں تھا ا س کتاب میں پشتون قوم کی تذلیل کی گئی ہے اس خاتون سے کوئی پوچھے گا کہ یہ کیوں کیا گیا ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کتاب پر فوری پابندی لگا دی جائے۔ اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے کہاکہ پاکستان مختلف قومیتوں کا گلدستہ ہے اس معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کرتا ہوںایوان بالا میں ن لیگی سینٹر نے سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوس نشستوں کے فیصلے پر تنقید کرتے اسے پارلیمنٹ کی بالادستی پر حملہ قرار دیا ہے ۔مسلم لیگ ن کے سینٹر طلال چوہدری نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر وضاحت کے نام پر ایک کے متعلق وضاحت کی ہے اور اس وضاحت نے اس فیصلے کو مذید متنوع اور متنازع کردیا ہے اور ججز ہمارے لئے محترم مگر اس طرح کے فیصلوں سے انہوںنے اپنے آپ کو خود تنازعات کا شکار کردیا ہے سپریم کورٹ پارلیمنٹ سے اوپر چلی گئی ہے پارلیمنٹ نے پہلے بھی صبر کا مظاہرہ کیا ہے اسی فیصلے کی وجہ سے پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کیا گیا ہے قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور کوئی بھی پارلیمنٹ کو اس سے روک نہیں سکتا ہے ۔