حیدر آباد؍ اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سانحہ کارساز کی 17 ویں برسی پر پیغام میں کہا کہ کارساز حملہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی، آمریت اور دہشت گردوں نے مل کر شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور پارٹی کی مرکزی قیادت کو نشانہ بنایا، شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب 30 لاکھ لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے، جو لوگ دہشت گردی اور تشدد کے ذریعے جمہوریت کی آواز کو دبانا چاہتے تھے، وہ ناکام ہو چکے، سانحہ کارساز یاد دلاتا ہے کہ بہادر جیالوں نے جمہوریت کے کاز کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جیالوں کی قربانی ہمارے اس طویل اور پرامن جمہوری پاکستان کے سفر کا اٹوٹ حصہ ہے، ہم ہر پاکستانی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ثابت قدم رہیں گے، جمہوریت کی حفاظت کریں گے، ہم عہد کرتے ہیں کہ انتہاپسندی کے خلاف ڈٹ جائیں گے، عہد کرتے ہیں کہ کسی طاقت کو ہمارے پیارے ملک کی ترقی کو پٹڑی سے اتارنے نہیں دیں گے۔سیکرٹری جنرل پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز سید نیر حسین بخاری، شازیہ مری، شیری رحمن، وقار مہدی، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ سانحہ کارساز جمہوریت کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ 18 اکتوبر ملک کی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ دہشت گردی کے آگے نہیں جھکیں گے۔ فیصل کریم کنڈی نے خصوصی بیان میں سانحہ کارساز کو پاکستانی تاریخ کا ایک المناک اور افسوسناک واقعہ قرار دیا اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے حیدرآباد میں سانحہ کارساز 18 اکتوبر کے حوالے سے جلسہ سے خطاب کرتے کہا ہے کہ پی پی کے کارکن، تنظیم اور سب سے بڑھ کر حیدر آباد کے عوام کا شکر گزار ہوں، شہید بی بی ایک مشن، نظریے اور منشور کے ساتھ وطن واپس آئی تھیں۔ ہم آج 18 اکتوبر 2007ء کی یاد کر رہے ہیں جب شہید بی بی پاکستان واپس آئی تھیں۔ شہید بی بی چاہتی تھیں کہ پاکستان کے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان ملے۔ شہید بی بی کے منشور میں 1973ء کے آئین کو بحال کرنا تھا۔ وہ اپنے والد کے مشن کی تکمیل کیلئے پاکستان آئی تھیں۔ اس وفاقی عدالت میں تمام صوبوں کی برابری میں نمائندگی ہونا تھی۔ اسی منشور میں شہید بی بی کا ایک اور مطالبہ تھا کہ وفاقی عدالت بنانی تھی، یہ بینظیر بھٹو کا خواب تھا۔ عدالت کا کام آمر کا راستہ روکنا تھا لیکن عدالتوں نے آمروں کا ساتھ دیا۔ شہید بی بی فیصلہ کر چکی تھیں کہ آئینی عدالت بنا کر رہوں گی۔ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں لیکن اس کے باوجود شہید بی بی کا وعدہ پورا کرنے جا رہا ہوں۔ اسلام آباد سے آئینی عدالت یا بنچ بنا کر آئوں گا۔جو تنقید کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آئینی عدالت کا کانسیپٹ پاکستان میں نہیں چل سکتا۔ جب میں پوچھتا ہوں کہ کیوں تو کہتے ہیں قیدی نمبر فلاں فلاں کہتا ہے نہ سب کا مطالبہ ہے کہ برابری کی نمائندگی ہو، سب کا مطالبہ ہے کہ ہر ایک کو عدالتوں سے فوری انصاف ملنا چاہئے۔ یہ مطالبہ صرف شہید بی بی کا نہیں یہ تو قائداعظم محمد علی جناح کا مطالبہ تھا نہ کھپے نہ کھپے ون یونٹ نہ کھپے۔ جسٹس پٹیل اگر پی سی او پر حلف لیتے تو افتخار چودھری کی طرح ایک آمر کا جج بن سکتے تھے، جسٹس پٹیل نے آمر کے راج کو قبول نہیں کیا۔ ہمارا مطالبہ ماننا پڑے گا۔ برابری کی عدالت بنانا پڑے گی۔ دہائیوں سے مطالبہ ہے آپ نے بنچ کا نام دینا ہے یا کوئی بھی نام دیں مطالبہ ہمارا ماننا پڑے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سلام پیش کرتا ہوں انہوں نے جو کام کیا تاریخ اسے یاد رکھے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہ رہے پھر بھی ہمارا مطالبہ ہے برابری کی عدالت قائم ہو۔ آئین سازی تمام جماعتوں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ انصاف اور برابری کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے امتحان ہے۔ ہم سے جو ہو سکا، کر لیا۔ آج سیاسی جماعتوں کیلئے ایک امتحان ہے، پوری کوشش ہے کہ آئین سازی اتفاق رائے سے کریں، دن رات محنت کر رہا ہوں، سیاسی جماعتیں آج کا نہیں بلکہ مستقبل بارے سوچیں۔ ہم سب کو پارلیمان کی عزت میں اضافہ کرنا چاہئے۔ یہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے موقع ہے۔ ہوش کے ناخن لیں۔ اسلام آباد سے آئینی بنچ و صوبائی بنچ بناکر واپس آؤں گا۔ اسلام آباد جاکر اپوزیشن جماعتوں کو قائل کرنے کی آخری کوشش کر رہا ہوں۔ میری کوشش ناکام ہو گی تو پھر سب کو جمہوریت کیلئے دعا مانگنی چاہئے۔ اگر اپوزیشن دروازہ بند کر دے گی تو متازع راستے پر چلنا پڑے گا۔ دو ماہ سے مشاورت کر رہے ہیں۔ اب مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ کوشش ہے تمام جماعتوں کو اکٹھا کروں۔ پی پی کا ڈرافٹ خود قومی اسمبلی میں پیش کروں گا۔ اتفاق نہ ہوا تو ن لیگ کے ساتھ ملکر قانون بنائیں گے۔ پارٹیز کا مزید انتظار اور کمپرومائز نہیں کر سکتا۔ اپوزیشن کو قائل کرنے کی آخری کوشش کروں گا۔ میں متنازع طریقے پر نہیں چنا چاہتا۔