اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ رانا فرحان اسلم+ نوائے وقت رپورٹ)آئینی ترامیم پر مشاورت کے لیے قائم خصوصی کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کے مسودے کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔ قائم خصوصی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس خورشید شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں تمام جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی سے منظور شدہ ترامیم کے مطابق چیف جسٹس کا چنائو تین سینئر ترین ججز میںسے کیا جائے گا۔ آئینی بینچز بنائے جائیں گے جن میں ہر صوبے سے مساویانہ تعداد میں ججز لئے جائیں گے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے دعویٰ کیا کہ آئینی ترمیم کے مسودے کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مسودے میں سمندر پار پاکستانیوں کے الیکشن لڑنے کی تجویز پر بھی اتفاق ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاق رائے کی تصدیق کی۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج تمام جماعتوں نے مسودے پر اتفاق کیا اور جو ڈرافٹ فائنل ہوا یہی حتمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کا حق دیا جائے یہ ہماری تجویز ہے اور اس تجویز پر بیشتر ارکان نے اتفاق کیا۔ تقریباً مسودے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے اور کل کا جو ڈرافٹ ہے وہ قابل قبول ہے۔ فاروق ستار نے مزید کہا کہ تحریک انصاف نکات پر مخالفت نہیں کر رہی ہے بلکہ اپنی پالیسی کے مطابق سیاسی بنیادوں پر مخالفت کر رہی ہے۔ اے این پی نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے قبل ازیں 56 نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اور اب یہ 26 نکاتی رہ گیا ہے، اس میں آرٹیکل 48 میں ترمیم بھی شامل کی گئی ہے جس کے تحت وزیراعظم، صدر اور کابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی گئی کوئی بھی سمری منظور ہوگئی تو وہ آئندہ کبھی کسی بھی عدالت، کسی بھی ادارے یا کسی بھی اتھارٹی میں چیلنج نہیں ہوسکے گی اور اس پر کوئی تحقیقات نہیں ہوگی اور نہ اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔ جوڈیشل کمیشن تیرہ رکنی ہوگا، بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی ہوگی جو چیف جسٹس کی تقرری کرے گی جس میں آٹھ اراکین قومی اسمبلی اور چار اراکین سینٹ سے ہوں گے۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال ہوگی، تین سینئر ججز کے نام تعیناتی کے لیے بھیجے جائیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر کی مدت ختم ہونے پر نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی تک کام جاری رکھ سکے گا۔ ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے پاکستانی شہری ہونا ضروری ہوگا اور اس کی عمر 40 سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ جج بننے والا شخص کم از کم ہائی کورٹ میں 10 سال کی پریکٹس کا حامل ہو اور کم از کم 10 سال کی میعاد سے اس کا پاکستان کے اندر جوڈیشل آفس موجود ہو۔ سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس آف پاکستان، دو سنئیر ترین ججز اور ہائی کورٹ کے دو سینئر ججز پر مشتمل ہوگی۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کیلئے 3 سینئر ترین ججز میں سے ایک نامزد کرے گی۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو ہوگی اور چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ ججز تعیناتی کے کمیشن میں ایک خاتون یا غیرمسلم رکن ہوں گے، یہ خاتون یاغیرمسلم سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کا الیکشن لڑنے کے اہل ہونے چاہئیں، ایسی خاتون یا غیرمسلم کی بطور رکن تقرری چیئرمین سینٹ کریں گے۔ کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔ چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہبازشریف کی ملاقات ہوئی، موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی کے آئینی ترامیم کے مسودے پر بھی بات کی گئی۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی یقین دہانی کرا دی۔ ذرائع کے مطابق بلاول نے کہا ہے کہ آج آپ کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا انتظام کر رہا ہوں۔ آج آپ جائیں اور بانی پی ٹی آئی سے حتمی مسودے پر بات کریں۔ تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے 4 رکنی کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی بانی کو حتمی مسودے پر بریفنگ دے گی۔ کمیٹی میں بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجا، حامد خان، علی ظفر شامل ہیں۔ کمیٹی کے علاوہ اسد قیصر بھی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کریں گے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم آئینی ترامیم کی جانب بڑھ رہے ہیں، ہم اپنی سیاسی طاقت کے ذریعے ترامیم منظور کرا سکتے ہیں اور اسے منظور کرا کے دکھائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم وہ وعدہ پورا کرنے جارہے ہیں جو آج تک پورا نہیں ہوا تھا، ہم آئینی ترامیم کی جانب بڑھ رہے ہیں، مسودہ تقریباً حتمی ہوچکا ہے ان کا کہنا تھا کہ جلد مولانا فضل الرحمان سے دوبارہ ملاقات کروں گا، ان کے جائز مطالبات کل وزیراعظم کے سامنے رکھے ہیں، امید کرتا ہوں وزیراعظم نے جو یقین دہانیاں کرائی ہیں وہ اس پر عمل کریں گے۔ اور دوسری طرف جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پی ٹی آئی کا وفد پہنچا۔ وفد میں بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، اسد قیصر، سینٹر علامہ راجہ ناصر عباس، صاحبزادہ حامد رضا شامل تھے۔ دریں اثنا اسی دوران چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو بھی مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے اور انہوں نے اپوزیشن کے وفد کے جانے کا انتظار کیا اور مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے آئینی ترامیم کے حوالے سے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان سے تقریباً اتفاق رائے ہوگیا ہے اور اب عمران خان کی ہدایات کے بعد کل حتمی اعلان کریں گے۔ اس ملاقات میں ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم پر بات چیت کی، گزشتہ ملاقات پر اس بات کا امکان تھا کہ اتفاق رائے ہو جائے گا۔ عمران خان کی ہدایات کے مطابق ہم اپنا حتمی مؤقف دیں گے۔ خصوصی کمیٹی میں ہماری طرف سے عامر ڈوگر اور جمعیت علمائے اسلام کا نمائندہ بھی موجود تھا ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اجلاس کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی آئے تھے اور مولانا فضل الرحمان نے انہیں وقت دیا اور ہماری بھی دعا سلام ضرور ہوئی لیکن مسودے پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔چھبیسویں آئینی ترمیم کا معاملہ جی سکس اسلام اباد میں واقع جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا گھرسیاسی سرگرمیوں کا محور و مرکز بن گیا۔ حکومت،اتحادی و اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی مولانا فضل الرحمن کے گھر صبح شام حاضریاں، ترمیم کے معاملے پراتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جمعہ کے روز دن بھر جی سکس میں واقع مولانا فضل الرحمن کا گھر سیاسی ملاقاتوں کا مرکز بنا رہا۔ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا، راجہ ناصر عباس سمیت بی این پی کے قائدین مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پہنچے۔ بعدازاں بلاول بھٹو زرداری، نوید قمر اور مرتضی وہاب کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن کے گھر پہنچے۔ پی ٹی آئی کا وفد بھی وہاں موجود تھا۔ ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار، حامد خان، علی ظفر اور سلمان اکرم راجہ بھی مولانا فضل الرحمن کے گھر آئے۔ رات گئے تک مولانا کے گھر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری حیدر آباد جلسے سے واپس اسلام آباد آکر مولانا فضل الرحمن سے دوبارہ ملاقات کریں گے اور حتمی فیصلہ سازی عمل میں آئے گی۔ قوی امکان ہے کہ آج ہونے والے سینٹ اجلاس کے دوران آئینی ترمیم منظوری کیلئے ایوان بالا میں پیش کر دی جائے گی۔ دریں اثناء پی ٹی آئی وفد نے گزشتہ رات پھر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی جس میں آئینی ترمیم کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ سینٹ کا اجلاس آج صبح گیارہ بجے ہوگا جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس دن تین بجے ہوگا۔ سینٹ اور قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم کا مسودہ پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ جبکہ سینیٹر مسلم لیگ ن عرفان صدیقی نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ مسودہ اچھا ہے ذاتی طور پر اتفاق کرتا ہوں، عامر ڈوگر نے اختلافی نوٹ نہیں دیا ،کہا کہ جماعت سے مشاورت کرنی ہے، پارلیمانی کمیٹی نے اتفاق رائے سے مسودہ منظور کیا۔ میٹنگ میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی۔ خورشید شاہ نے اعلان کرکے مسودہ منظور کیا۔ جو مسودہ آج کمیٹی کے سامنے آیا وہ حتمی تھا۔ پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر جماعتیں اس پر متفق تھیں۔ مولانا فضل الرحمن، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا مسودہ ایک ہوا۔ آئینی عدالت سے آئینی بنچ تک آنا ہمارے لئے بڑا مرحلہ تھا۔ تین جماعتوں کا اتفاق رائے ہے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی بھی ساتھ ہیں۔ سینیٹر جے یو آئی ف کامران مرتضیٰ نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ جو مسودہ بنا ہے اسے ہم نے مل کر بنایا ہے۔ آئینی ترامیم کے معاملے پر ہم پی ٹی آئی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس کیلئے پینل بنانے کے معاملے پر اختلاف ہے۔ ہماری بہت سی باتیں مان لی گئی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک دو دن ملیں تاکہ ہم بحث کرکے نتیجے تک پہنچ سکیں۔ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ ڈرافٹ شیئر کیا تھا۔ پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر نے کہا کہ میں نے کمیٹی چیئرمین کو بتایا تھا کہ ہماری مشاورت جاری ہے، بحث جاری تھی کہ خورشید شاہ نے کھڑے ہوکر کہہ دیا کہ مسودہ منظور ہو گیا۔ چیئرمین سے کہا مولانا فضل الرحمن کے پاس ہمارے ممبران بیٹھے ہیں، میں نے کہا ذاتی طور پر متفق ہوں مگر جماعت سے مشاورت کرنی ہے۔ میں نے کہا اس اتفاق رائے میں شامل ہیں، جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنے کیلئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کا ابھی جو ڈرافٹ ہے وہ ہمیں قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اور آئینی بنچ کے ممبران کی تقرری پر اعتراض ہے۔ دونوں نکات حکومت کے ہاتھ میں نہ دیئے جائیں۔ مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد آئینی مسودہ آج سینٹ اور قومی اسمبلی میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ مختلف باتیں کر رہے ہیں جبکہ پارلیمانی کمیٹی میں مسودہ اتفاق رائے سے ہی منظور ہوا۔ وفاقی کابینہ سے آج ترامیم کی منظوری کا امکان ہے۔