شنگھائی تعاون تنظیم کا میاب اجلاس '' ہوا کا تازہ جھونکا''

 سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی شنگھائی تعاون کانفرنس جو کہ اس تنظیم کے رکن ممالک میں منعقد کی جاتی ہے خوش قسمتی سے رواں برس 15سولہ اکتوبر کو اسلام آباد منعقد ہو ئی ،اس قسم کی عالمی کانفرنس ملک کے حالات میں جو تبدیلی لاسکتی ہے وہ تو لانی ہی ہو گی ،لیکن اس کانفرنس کی وجہ سے ہماری معیشت جو کہ کمزور ہے لا چار ہے اور بے بس ہے اور ہر وقت آئی ایم ایف کے سہارے پر ہی رہتی ہے وہ بہتر ہو سکتی ہے ،بلکہ بہتر سے بہتر ہو سکتی ہے۔اگر اس اجلاس کے بعد میسر آنے والے مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے تو اقتصادی حالات میں نمایاں بہتری لا ئی جاسکتی ہے۔ہمیں سمجھنا ہو گا کہ اب اگر ہمیں بطور ملک اور بطور قوم آگے بڑھنا ہے اور لک ویسٹ کی بجائے لک ایسٹ کی پالیسی اپنانی ہے تو ہمیں ہر صورت میں ان ممالک کے ساتھ تجارت کو بڑھانا ہو گا ،ہمارے پاس مواقع ہیں کہ ایس سی او رکن ممالک کی منڈیوں کو اپنی مصنوعات کے لیے حاصل کریں،ترجیحی بنیادوں پر اپنی مصنوعات کے لیے ان ممالک ترجیحی بنیادوں پر رسائی مانگی جائے اور اپنی معیشت اور کاروبار اور خاص طور پر برآمدات کو بڑھا کر معیشت کو مضبوط کیا جائے گا۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم جس بری طرح سے تقسیم کا شکار ہو چکے ہیں اور سیاست جس حد تک زہر آلود ہو چکی ہے اس اہم موقع پر بھی سیاست سے گریز نہیں کیا گیا اور احتجاج کی کال دی گئی ،لیکن میں پھر پی ٹی آئی کی قیادت کو سراہنا بھی چاہوں گا کہ انھوں نے اپنی غلطی کا بہت ہی جلد ی احساس کر لیا اور یہ کال واپس لے لی گئی۔یہ نہایت ہی شاندار فیصلہ تھا جس نے کہ ملکی وقار کو بلند کیا۔ایسے اجلاسوں کے کامیاب اجلاسوں سے ہی ملکی حالات پر اثرات پڑتے ہیں۔اس سے قطہ نظر کہ کون آرہا ہے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اس کانفرنس میں ہر ملک کی نمائندگی اعلیٰ ترین سطح پر کی جارہی تھی یہ ایک طویل عرصے کے بعد یہ قابل قدر مہمان داری پاکستان کو نصیب ہو ئی۔چین کے وزیر اعظم کا 11برس بعد اور روس کے وزیر اعظم کا برسوں بعد دورہ اور یہاں تک کہ بھارت کے وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بھی ممکن ہو ا جو کہ امید نہیں کی جارہی تھی کہ ایسا ہو پائے گا۔ بہر حال یہ ایک بڑی کامیابی ہے ،میں پھر سے کہوں گا کہ اس موقع پر ہر طرف سے مثبت ردعمل کا اظہار ہونا چاہیے تھا ،کسی بھی جمہوری ملک میں حکومت پر اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنا اپوزیشن کا کام ہو تا ان کا حق کہلاتا ہے اور حکومت بھی خندہ پیشانی سے تنقید سنتی ہے لیکن مظاہرے اور دھرنے والا کام بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے ،جو کہ اب تحریک انصاف کرنے بھی جارہی ہے۔لیکن میں یہاں یہ ضرور کہوں گا کہ عمران خان کی جماعت کا تو نہیں لیکن بہر حال عمران خان یہ کمال ضرور ہے کہ کسی بھی اہم موقع پر جب بھی کو ئی بڑا ایونٹ ہونے جا رہا ہو تا ہے تو ،وہ احتجاج کی کال ضرور دیتے ہیں ،مثال کے طور پر 2014ء  میں چینی صدر کے دورے کے موقع پر احتجاج تھا ،بلکہ ایک ہنگامہ برپا تھا جس کے باعث چینی صدر کا اس وقت کا دورہ معطل ہو گیا تھا۔اور اس سے پاکستان کو بہت نقصان بھی ہو ا۔اور کئی معاملات آج بھی معطل ہیں ،اور اس سے یہ بھی ہوا کہ پاکستان کی ترقی سے متعلقہ کئی اقدامات 
بھی متاثر ہو ئے ترقی جو کہ ایک رفتار کے ساتھ شروع ہو ئی تھی اس پر بھی اچھا خاصا اثر پڑا۔شنگھا ئی کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے نتیجے میں بھی امید ہے کہ پاکستان کے بہت سارے بلا واسطہ مطالبات اور تقاضے پورے ہو جائیں گے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمار ی سیاست ہی کسی اور طریقے سے پروان چڑھی ہے ،وہ مارشل لا ء  زدہ ہے ،مارشل لا ء  کی اپوزیشن کو سمجھنے کے لیے اس کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اور ہماری جمہوریت اس سطح پر پروان نہیں چڑھ سکی ہے جس سطح پر چڑھنی چاہیے تھی ،ایک کمزور اور نامکمل جمہوریت ہے اور ہمارے سیاسی رویوں میں بھی کمیاں ہیں اس حوالے سے بھی بحث ہونی چاہیے اور اہل علم اور دانشوروں کو اس پر بحث کرنی چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانا چاہیے۔سیاسی جماعتوں میں جو کسی بھی قسم کی خامیاں ہیں ان کو دور کرنا چاہیے۔ایک بات لازمی کہوں گا کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں ایک بیو رو کریسی کا عنصر مطلب یہ کہ ان جیسا طر ز عمل موجود ہے ،معاملات کو پارٹی اجلاس اور سیاسی بحث قراردادوں کے ذریعے نہیں بلکہ نو ٹیفیکشن جاری کرکے طے کیا جاتا ہے۔کسی بھی جمہوری جماعت کے لیے یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے۔ہمیں اصلاح کی جانب جان ہو گا تب ہی معاملات میں بہتری آئے گی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں گراس روٹ سطح پر منظم ہیں اور نہ ہی اس طرح سے ان کا گلی محلوں میں وجود ہے جو کہ ہونا چاہیے۔قائد اعظم محمد علی جناح بھی ممبئی کے ایک یونٹ سے مسلم لیگ کے صدر تھے اور پھر وہ قائد اعظم بنے ،لیکن قومی سطح کا لیڈر بننے کے بعد بھی قائد نے یونٹس کی سطح پر پارٹی ورکروں سے ملا قاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ،کبھی کسی سے ملنے سے انکار نہیں کرتے تھے سب کی بات سنتے تھے اور یہ ہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔یونٹ کی سطح سے لے کر اوپر تک الیکشن کے ذریعے عہدے دار منتخب ہو کر آتے تھے۔کنونشنز کے ذریعے کارکنان کی باتیں نہ سنی جائیں اور گلے شکوے دور نہ کیے جائیں تو پارٹی میں جان پڑنا مشکل ہو تا ہے۔پیپلز پا رٹی نے حال ہی میں بلو چستان میں یوم تاسیس رکھا تھا اس کے باعث بلوچستان میں پیپلز پا رٹی میں کچھ  جان آئی ہے۔اسی طرح ڈ ویژن لیول پر پروگرام کروائیں ،لیڈر حضرات پورا دن کارکنوں کی بات سنیں ،ان کی تلخ باتیوں کو بھی برداشت کریں ،آخر میں لیڈر تقریر کریں اور گلے شکوے ختم ہو ں تو پھر ہی پارٹی میں جان آتی ہے اور بات بنتی ہے۔پارٹیوں اور جمہوریت کی بنیادی سطح پر ہی کمزوری مداخلت کا باعث بنتی ہے۔جمہور کو مضبوط بنانا ہو گا ،جمہور کو مضبوط بنانے سے ہی جمہوریت مضبوط ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن