”سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھا جائے“

خالد ایچ لودھی ۔۔۔
پاکستان مےں پوری قوم نے اور سمندرپار پاکستانیوں نے بڑے بوجھل دل کے ساتھ عیدالفطر منائی خوشی کے اس تہوار کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو رمضان المبارک کے مقدس ایام کے بعد انعام کے طور پر مسلمانوں کو عطا کیا ہے۔ یہ عیدالفطر اس موقع پر منائی گئی کہ جب وطن عزیز کے دو کروڑ لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو کر بے یارومددگار کھلے آسمان تلے اپنے معصوم پھول جیسے بچوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہےں۔ اس سے قبل یہ لوگ اپنے گھروں مےں اپنے والدین اور بیوی بچوں کے ساتھ خوش و خرم عید منایا کرتے تھے لیکن اس بار قدرت نے انہیں آزمائش سے دوچار کر رکھا ہے، مشکل کی اس گھڑی مےں پوری قوم اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ہے اور اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر سیلاب زدگان کی مدد کر رہی ہے۔ ملک کے حکمرانوں کی معمول کی شہ خرچیاں اپنی جگہ برقرار ہےں، رشوت، کرپشن، میرٹ کی پامالی، سفارش اور اقرباپروری جیسی بیماریاں پورے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہےں۔ بیرون ملک سے آنےوالی امداد کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے کہ وہ کہاں خرچ ہو رہی ہے؟ حکومت کے قول و فعل مےں برابر تضاد پایا جاتا ہے، حکومتی اخراجات برابر آسمان سے باتیں کر رہے ہےں اب جب کہ سیلاب زدہ علاقوں سے سیلابی پانی اترنے لگے گا تو پھر اصل مسائل منظر عام پر آنا شروع ہونگے مثلاً تاریخ کے اس المناک سیلاب کی تباہ کاریوں کی اصل شکل کیا ہے؟ یہ سیلاب کتنے انسانوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا؟ مال مویشیوں کا کتنا نقصان ہوا؟ اور پھر قیمتی جانوں کے ضائع ہونے سے کتنے گھرانے تباہ و برباد ہوگئے اور سیلاب زدہ علاقوں مےں آبادکاری کس طرح ہوگی؟ تعلیم، صحت، روزگار اور مواصلات کے مواقع کس طرح بحال ہونگے؟ یہ وہ مسائل ہےں جوکہ اب آنے والے دنوں مےں سر اٹھائیں گے۔
دوسری جانب بیرونی امداد کا ایک بڑا حصہ خود بیرونی امدادی اداروں کے بقول نجانے کہاں خرچ ہوا ہے؟ سعودی عرب سے امدادی اشیاءکی جو کھیپ پاکستان آئی تھی اس کے بارے مےں خبریں عام ہےں کہ وہ بازار مےں فروخت ہو رہی ہےں۔
حکومت اور سیاسی رہنماﺅں کے مابین امدادی کارروائیوں اور دیگر امور پر نہ تو اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور نہ ہی اس بارے مےں کوئی مشترکہ حکمت عملی سامنے آئی ہے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں برابر جاری ہےں، ڈرون حملے روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہےں عوام کی سطح پر لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی ملک مےں ایک نیا بحران لے کر آرہی ہے، رحمان ملک، بابر اعوان، فوزیہ وہاب، شرمیلا فاروقی اور فیصل رضا عابدی کے ذریعے سیاسی بیانات کی گولہ باری خود حکومتی ساکھ کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ اسی طرح امریکہ مےں حکومت پاکستان کے نمائندے حسین حقانی اور برطانیہ مےں واجد شمس الحسن کی کارکردگی سب پر عیاں ہے، یہ شخصیات مملکت پاکستان کی نمائندگی کم اور آصف علی زرداری کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرنے مےں نہ صرف مصروف ہےں بلکہ برطانیہ مےں تو واجد شمس الحسن بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی گروپنگ بھی کر رہے ہےں امریکہ مےں زرداری اینڈ کمپنی کو مضبوط بنانے مےں حسین حقانی کا کردار بھی بڑا واضح نظر آرہا ہے۔ ان پالیسیوں کا واحد مقصد مخصوص خاندان کی سیاسی اجارہ داریوں کو فروغ دینا ہے حالانکہ پورا ملک اس وقت جس المناک تباہی سے دوچار ہے اس سلسلے مےں بین الاقوامی سطح پر حکومت پاکستان نے نہ تو کوئی پلان تشکیل دیا ہے اور نہ ہی بیرون ملک پاکستان کی تباہ حال بستیوں کے بارے مےں معلومات فراہم کی گئی ہےں۔ عالمی اداروں کی رپورٹوں کو ہی سامنے رکھ کر بیرون ملک آباد پاکستانی امداد فراہم کر رہے ہےں۔
سیلاب کی تباہ کاریوں سے نہ تو حکمرانوں نے کوئی سبق ہی سیکھا ہے اور نہ ہی اپنی پالیسیاں تبدیل کی ہےں ہیوی ویٹ وفاقی کابینہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ برقرار ہے ممبران پارلیمنٹ کے بھاری اخراجات اپنی جگہ ہےں۔ حکومتی اداروں مےں کٹوتی نام کی کوئی چیز دیکھنے کو نہیں آرہی دو کروڑ لوگوں کے بے گھر ہونے کے باوجود حکمرانوں کا شاہانہ طرز زندگی جو نمونہ پیش کر رہا ہے اس پر اب مغربی پریس جس انداز مےں انگلیاں اٹھا رہا ہے اور جو کارٹون شائع ہو رہے ہےں کم از کم ان کو دیکھ کر ہی کوئی عوام دوست پالیسی مرتب کر لی جائے تو یقیناً مصیبت زدہ عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔
عالمی سطح پر حکومتی اور نجی ادارے پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کےلئے بھرپور مدد کر رہے ہےں مگر وہ پاکستان کے حکومتی اداروں پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار بھی کرتے ہےں کیونکہ حکومت پاکستان کے اداروں اور سیلاب زدگان کی امداد کےلئے حکومتی سطح پر کیے گئے اقدامات مےں صاف شفاف طریقہ کار بہت کم ہے۔ پاکستان مےں تمام شعبہ ہائے زندگی مےں پائی جانے والی کرپشن اکثر مغربی میڈیا پر زیر بحث رہتی ہے اب اگر واقعی حکومت پاکستان سیلاب زدگان کی دوبارہ آبادکاری اور سیلاب زدہ علاقوں مےں معمول کی زندگی کو بحال کرنے مےں اپنا قومی فریضہ ادا کرنا چاہتی ہے تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ اب سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھا جائے اور سیلاب زدگان کی امداد کےلئے آنے والی امداد کو صاف شفاف طریقے سے استعمال مےں لایا جائے اور دیانتدار افراد پر مشتمل کمشن تشکیل دے کر ہنگامی بنیادوں پر سیلاب زدہ علاقوں مےں تعمیر نو کا آغاز کیا جائے اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے مےں فوری طور پر عملی اقدامات کئے جائیں اس سارے عمل مےں سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے صرف اور صرف ایک ہی ایجنڈا ہو کہ اب پاکستان کی تباہ حال بستیوں کو دوبارہ آباد کرنا ہے اور بے گھر گھرانوں کو دوبارہ چھت فراہم کرنے کے ساتھ ان جاگیرداروں، وڈیروں اور اعلیٰ شخصیات کا بھی محاسبہ کیا جائے گا کہ جنہوں نے اپنی جاگیریں، جائیداد اور کارخانے بچانے کی خاطر بند اور پشتے توڑے اور اس طرح کروڑوں لوگوں کے گھروں کو برباد کیا۔

ای پیپر دی نیشن