افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کے روز اغواکئے گئے الیکشن کمیشن کے تین اہلکاروں کی لاشیں مل گئی ہیں جبکہ مبصرین نے انتخابی عمل پربھی شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔

افغانستان کے پارلیمانی انتخابات اوراس دوران پرتشدد واقعات میں چودہ افراد کی ہلاکت کے ایک روز بعد الیکشن کمیشن کے اغواکئے گئے تین اہلکاروں کی لاشیں ملی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے افسرفضل احمد مہنوی نے کابل میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ہفتے کوصوبہ بلخ میں اغواکئے گئے ہمارے تین اہلکاروں کی لاشیں مل گئی ہیں۔ پولنگ کے موقع پر طالبان نے ملک بھر میں ایک تین سو پولنگ سٹیشنز پرحملے کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔  پولنگ کے ایک روز بعد افغانستان میں سکیورٹی معمول پر آنے لگی ہے۔ افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ انتخابی عمل کا کامیاب اہتمام کیا گیا تاہم انتخابی عمل کے نگرانوں کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ فری اینڈ فیئرالیکشن فاؤنڈیشن آف افغانستان نے عام انتخابات کے معیار پر شدید تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے بہت سے علاقوں میں شائع شدہ بیلٹ پیپرزایک دوسرے سے مختلف تھے۔ کئی علاقوں میں بچے بھی ووٹ ڈالتے رہے۔ صوبہ قندھار کے ایک دیہاتی نے بتایا کہ اس کے گاؤں میں ووٹ ڈالنے کےلئے سب لوگوں سے پہلے ہی شناختی کارڈ لے لئے گئے تھے۔ پھر ان کارڈز پر کس نے ووٹ ڈالا علم نہیں۔ افغان الیکشن کمیشن نے ابھی تک ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ نہیں بتایا تاہم اتناکہا ہے کہ چھیاسی فیصد پولنگ سٹیشنزپر ساڑھے تیس لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے۔ کمیشن نے پہلے کہا تھا کہ ایک کروڑ دس لاکھ افراد کے ووٹ ڈالنے کے لئے منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ یہ انتخابات کرزئی حکومت کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ایک سال پہلے کے متنازعہ صدارتی الیکشن کی وجہ سے ان کی حکومت کی ساکھ بہت خراب ہوچکی ہے۔

ای پیپر دی نیشن