فارماسیوٹیکل مافیا اور ڈینگی

تقریباً دس بارہ سال پہلے امریکہ میں ”انفلونزا“ (فلو) اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی تیزی سے پھیل گیا کہ امریکہ کا ہر تیسرا شخص اس مرض میں مبتلا ہو گیا۔ یہ وائرس بھی ایک مچھر کے ذریعے ہی پھیلا۔ لیکن امریکی حکومت اور امریکی عوام چونکہ ترقی یافتہ ہیں اور کسی بھی طرح کی آفت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے اس وائرس (انفلوئنزا)سے کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔ لیکن اس کی ویکسیئن جب مارکیٹ میں آئی تو اس وقت تک ہزاروں لوگ اس مرض میں مبتلا ہو چکے تھے لہٰذا اس کی ویکسیئن ہاتھوں ہاتھ اور منہ مانگے داموں فروخت ہوئی۔ اسی طرح آپ نے ماضی قریب میں برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں ”برڈ فلو“ اور ”میڈ کاﺅ“ کے نام سے پھیلنے والے وائرس سے متعلق خبریں پڑھی ہوں گی بلکہ ”برڈ فلو“ تو پاکستان آ پہنچا تھا اور لاکھوں کی تعداد میں برائلر مرغیاں پولٹری فارم کے مالکان نے تلف کر دی تھیں۔ پھر اس کے بعد آج تک اس وائرس سے بچاﺅ کے لیے برائلر مرغیوں کو باقاعدہ ویکسیئن دی جاتی ہے۔ اسی طرح یورپ میں ”میڈکاﺅ“ (پاگل گائے) نامی وائرس نے اس قدر خوف و ہراس عوام میں پھیلا دیا کہ لاکھوں گائیں، بھینسیں مار دی گئیں۔ لوگوں نے گائے کا گوشت تو ایک طرف دودھ تک پینا چھوڑ دیا۔ پھر اس کی بھی ویکسیئن مارکیٹ میں آ گئی اور اب معمول کے مطابق فروخت ہو رہی ہے اور جانوروں کو باقاعدہ اس ویکسیئن کے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ اب پاکستان میں گزشتہ دو برس سے ”ڈینگی“ نامی وائرس چھوڑا گیا ہے۔ یہ وائرس بھی مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے اور انتہائی خطرناک ہے کہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر اس کا درست علاج اور پرہیز نہ کیا جائے۔ یہ سب کیا ہے؟........ یہ مختلف قسم کے وائرس کہاں سے آ رہے ہیں؟........ یہ ”فارماسیوٹیکل مافیا“ کے ”کارنامے“ ہیں جو اپنا کاروبار بڑھانے اور پھیلانے کی خاطر لوگوں کی زندگی سے کھیل رہا ہے۔ یہ مافیا اس قدر وسیع اور مضبوط ہے کہ امریکہ اور یورپ بھی اس کے سامنے بے بس ہیں تو ہماری کیا مجال ہے کہ اس جنّ پر قابو پا سکیں؟.... ہماری حکومت تو پہلے ہی ”دنگل“ میں اس مافیا کے ہاتھوں چت ہو گئی ہے۔ ”فارماسیوٹیکل مافیا“ کے سرکردہ لوگوں سے لے کر ان کے ادنیٰ سے کارکن تک اسی ڈینگی وائرس کی طرح پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے کام میں دن رات مصروف ہیں۔ ان لوگوں کے نشاندہی کرنا ممکن نہیں۔ ان کا طریقہ¿ واردات یہ ہوتا ہے کہ پہلے یہ ایک وائرس ”ایجاد“ (تیار) کرتے ہیں۔ پھر اس کی ویکسیئن تیار ہوتی ہے۔ پھر اس وائرس کے اثرات اپنے چند لوگوں پر آزمائے جاتے ہیں۔ آخر میں ویکسیئن کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ جب ہر چیز ان کی مرضی کے مطابق تیار ہو جاتی ہے تو جہاں مناسب سمجھا جاتا ہے وہاں تیار شدہ وائرس چھوڑا جاتا ہے۔ ویکسیئن اس وقت مارکیٹ میں لائی جاتی ہے جب اس کی ڈیمانڈ اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ اس دوران مذکورہ وائرس سے کتنے لوگ جاں بحق ہوئے؟ کتنے گھر اُجڑے؟ کتنے بچے یتیم ہوئے؟.... اس کی پرواہ نہیں کی جاتی.... یہ اتنے ظالم لوگ ہیں کہ دولت کے لالچ میں بے گناہ، معصوم لوگوں کی زندگی ختم کرنے سے بھی ڈرتے نہیں۔
اس وقت پورا پنجاب، خصوصاً لاہور ڈینگی کے شدید ترین حملے کی زد میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور التجا ہے کہ وہ اپنے محبوب کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل پاکستان اور پاکستانی عوام کو زمینی اور آسمانی آفات سے نجات دلائے اور ہماری جملہ کوتاہیاں معاف فرمائے۔ (ثم آمین)

ای پیپر دی نیشن