وزیرِ امورِ کشمیر‘ گلگت وبلتسِتان‘ میاں منظور وٹو کا نِجّی دورہ¿ بھارت کامیاب رہا‘ اگرچہ یہ دورہ‘ بھارتی پنجاب تک ہی محدود تھا۔ خبروں کے مطابق امرتسر پہنچ کر وٹو صاحب نے جذباتی لہجے میں کہا.... ”مَیں اپنی جائے پیدائش ”معظم گاﺅں“ دیکھنے آیا ہوں۔ میرے بزرگ اِس گاﺅں میں رہتے تھے۔ مَیں بچہ تھا‘ جب میرا خاندان پاکستان چلا گیا۔ میں اپنا گھر دیکھنا چاہوں گا‘ جہاں میرے خاندان کے لوگ رہتے تھے۔ معظم گاﺅں کی گلِیاں دیکھوں گا اور لوگوں سے مِلوں گا“۔ وٹو صاحب نے یہ بھی بتایا ہے کہ ”میرے ساتھ میری دونوں بیگمات‘ دو بیٹے‘ بیٹی اور داماد بھی میری جائے پیدائش دیکھنے آئے ہیں۔
میاں منظور احمد وٹو نے‘ اِس سوال کا جواب دینے سے گریز کِیا کہ ”جب ماضی میں پاکستان کا سرکاری وفد بھارت آیا تھا‘ تو اُس نے پہلے کشمیری بنیاد پرستوں (حُرّیت پسندوں) سے ملاقات کی تھی؟“۔ دراصل وزیرِ امورِ کشمیر کا تو حُرّیت پسندوں سے ملاقات کا پروگرام ہی نہیں تھا‘ وہ تو ”امن کی آشا“ کا دِیپ جلانے اور سِکّھوں سے اپنے ذاتی تعلقات بنانے گئے تھے۔ تاہم‘ انہوں نے کہا.... ”حکومتِ پاکستان‘ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لئے شدید بیتاب ہے اور نئی ویزا پالیسی اور دوطرفہ تجارت سے ہم اپنا مقصد ضرور حاصل کر لیں گے“۔ ایک تقریب میں‘ وٹو صاحب نے‘ بھارتی وزیرِاعلیٰ پنجاب‘ پرکاش سِنگھ بادل کی اِس تجویز سے اتفاق کِیا کہ ”بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں کھیلوں کے مقابلوں کا پیمانہ وسیع کِیا جائے‘ خصوصاً ”کبڈّی“ کے مقابلوں کا“.... ”کبڈّی“.... ایک کھیل کا نام.... جِس میں دو گروہ بناتے ہیں۔ درمیان میں ایک ”حدِّ فاصل“ ہوتی ہے‘ جِسے ”پالا“ کہتے ہیں۔ ایک گروہ کے لڑکے ”پالا“ عبور کر کے دوسرے گروہ کے لڑکوں کو چُھو کر‘ کبڈّی‘ کبڈّی‘ کہتے ہوئے‘ واپس آ جائیں تو فیصلہ ہو جاتا ہے کہ دوسرے گروہ کے لڑکے ہار گئے۔ کیا ہمارے وزیرِ امورِ کشمیر اب ”کبڈّی ڈپلومیسی“ کے ذریعے بھی‘ مسئلہ کشمیر حل کرائیں گے؟
میاں منظور احمد وٹو کی طرح‘ میری بھی جائے پیدائش‘ مشرقی پنجاب کی ہے۔ مَیں”نابھہ“ میں پیدا ہوا تھا۔ مجھے دو بار پیشکش ہوئی‘ لیکن مَیں ”نابھہ“ نہیں گیا۔ جولائی 2001ءمیں جب صدر جنرل پرویز مشرف‘ آگرہ سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے تو‘ مَیں میڈِیا ٹیِم کا رُکن تھا۔ نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمِشن میں‘ صدرِ پاکستان کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ میں‘ کئی بھارتی سیاستدان بھی موجود تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سربراہ آنجہانی‘ سردار ہرکِشن سنِگھ سُرجِیت نے‘ جِن سے میری ”بابائے سوشلزم“ شیخ رشید کے دفتر (مزنگ لاہور) میں دو بار ملاقات ہو چکی تھی‘ مجھے کہا.... ”اثر چوہان! چل تَینوں نابھے لَے چلاّں۔ اپنے بُزرگاں دِیاں قبراں تے دُعا منگ لوِیں!“.... میں نے جواب دِیا.... سردار جی! میرے دادا‘ دادی ہوراں دِیا قبراں سرگودھے چ نیں تے ماں پیو دِیاں لہور چ‘۔ میرا اونہاں قبراں نال ای گزارا ہو جاندا اے۔
دسمبر 2004ءمیں وزیرِاعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی‘ جب پٹیالہ کی ”ورلڈ پنجابی کانفرنس“ میں شرکت کے لئے گئے‘ تب بھی مَیں میڈیا ٹیِم میں تھا‘ اُس وقت مجھے ایک سِکھ افسر نے کہا کہ ”چوہان جی! چلو تہانوں نابھے لے چلّئے!“ میں نے پھر معذرت کر لی۔ دراصل مَیںابھی تک‘ 1947ءمیں نابھہ‘ پٹیالہ اور امرتسر میں‘ سِکھوں کے ساتھ لڑتے ہوئے‘ اپنے قبیلے کے 26 بزرگوں کی شہادت کو نہیں بھول سکا۔ وٹوصاحب کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ حکمران طبقے سے ہےن اور مَیں عام آدمی ہوں۔
”پنجابی کانفرنس“ کے منتظمین شاید‘ میرے پس منظر سے ناواقف تھے‘ کہ انہوں نے 2 دسمبر 2004ءکو پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے سائنس آڈیٹوریم میں ”مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان میڈیا کا کردار“ کے موضوع پر‘ مجھے بھی مدعو کرِ لِیا۔ مجھ سے پہلے‘ سِکھ دانشوروں اور گرومکھّی پنجابی اخبارات کے ایڈیٹروں نے اپنی تقریروں میں‘ پنجابی زبان کی بنیاد پر‘ بھارتی اور پاکستانی پنجاب کی سرحدی لِکیر مٹانے کی بات کی.... میں نے کہا.... اِس پٹیالہ میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو قتل کِیا گیا تھا۔ پورے مشرقی پنجاب میں دس لاکھ مسلمان قتل ہوئے۔ اور پچاس ہزار مسلمان عورتوں کو اغوا ءکر کے اُن کی عزتیں لُوٹی گئیں.... پھر مَیں نے اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ.... مشرقی تے مغربی پنجاب دی لِکیر وِچّ میرا لہو شامل اے۔ میں ایہہ لِکیر نہیں مِٹن دیاں گا۔
محترم مجِید نظامی نے‘ کبھی کسی پنجابی اخبار یا رسالے کو انٹرویو نہیں دِیا‘ لیکن میرے پنجابی جریدے ”چانن“ لاہور کے لئے انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا.... ”اسِیں پنجاب دی لِکیر نُوں مٹان دی گل کراں گے تاں ساڈا تعلق سِکھاں نال ہو جاﺅے گا۔ جیہڑے لوکی مشرقی تے مغربی پنجاب دی سرحدی لِکیر نُوں مٹان دی گل کر دے نیں اوہ ایتھوں دفعہ ہو جان“.... جنابِ نظامی اِس وقت نظریہ¿ پاکستان کے وارث ہیں اور اُن کے ہمنواﺅں کی تعداد اَنگنت ہے۔ دسمبر 2004ءکی ”پنجابی کانفرنس“ کے موقع پر جب بھارتی پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کیپٹن امریندر سِنگھ نے بھی زبان اور ثقافت کی بنیاد پر مشرقی اور مغربی پنجاب کی لِکیر مٹانے کی بات کی‘ تو چودھری پرویزالٰہی نے کہا.... ”کئی مسلمان ملکوں کا مذہب‘ زبان اور ثقافت ایک ہے لیکن سرحدی لِکریں ختم نہیں ہوئیں‘ اِسی طرح بھارتی اور پاکستانی پنجاب کی سرحدی لِکیر نہیں مِٹ سکتی۔“
گزشتہ دِنوں‘ بھارتی وزیرِ خارجہ ایس ایم کرشنا پاکستان آئے تو‘ اُنہوں نے حضرت داتا گنج بخشؒؒ کے مزار پر حاضری دی۔ یومِ وِصال قائدِاعظمؒ پر (11 ستمبر کو) ایوانِ کارکناںِ تحریک پاکستان میں تقریر کرتے ہوئے‘ جنابِ نظامی نے‘ کرشنا جی کی دُعا کے بارے میں کہا.... ”میں جانتا ہوں کہ اُس نے کیا دُعا مانگی ہو گی؟ میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ اُس کی دُعا قبول نہ ہو!“جنابِ مجِید نظامی‘ صاحبِ وجدان ہیں۔ انہوں نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ‘ کرشنا جی نے‘ پاکستان کے خلاف ہی دُعا مانگی ہو گی۔ میں بھی یکے از پَیرو کارانِ مجِید نظامی ہوں۔ اور چھوٹے پیمانے پر صاحبِ وجدان بھی۔ مجھے معلوم ہے کہ میاں منظور احمد وٹو کی بیگمات نے گولڈن ٹمپل تعمیر کرانے والے‘ سِکھوں کے پانچویں گُرو‘ گُرو ارجن جی سے یہ دُعا مانگی ہو گی کہ ”میاں منظور احمد وٹو پاکستان کے وزیرِاعظم اور اُن کے بیٹے باری باری وزیرِاعلیٰ پنجاب بن جائیں“ اور میاں منظور احمد وٹو کی دُعا یہ ہو گی کہ.... ”اے گُرو جی! ”واہے گُرو جی سے کہہ کر مجھے بھی صدرِ پاکستان بنوا دیں.... صدر زرداری سے بھی طاقتور صدر‘.... اور مجھے وزیرِ امورِ کشمیر کی حیثیت سے ”کبڈی ڈپلومیسی“ کے ذریعے مسئلہ کشمیر‘ حل کرانے کی صلاحیت بھی عطا فرمائیں“۔ اُستاد رشک نے عاشقوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ معشُوقوں سے کبڈّی نہ کھیلیں۔ کہتے ہیں....
”مرنے والوں کو پڑا‘ پَیکِ اجل سے پالا
جب کبڈّی‘ وہ بصد ناز و ادا‘ کھیل گئے“
دیکھنا یہ ہے کہ وٹو صاحب‘ سیاستدان کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں یا عاشق کا؟
منظور وٹّو کی ”کبڈّی ڈِپلومیسی“
Sep 19, 2012