صرف چار پانچ ماہ پہلے کی بات ہے کہ کمر توڑ مہنگائی کی مذمت میں سب سے زیادہ احتجاج اور توانا آواز مسلم لیگ (ن) کے قائد جناب نواز شریف کی طرف سے بلند کی جاتی تھی اور پیپلز پارٹی کے حکمران یہ آواز نہیں سنتے تھے۔ اب مہنگائی ختم کرو اور عوام کو جینے دو کے نعرے پیپلز پارٹی بلند کرتی ہے اور یہ آواز محترم نواز شریف کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔ کبھی حکمرانوں کا کوئی نمائندہ پٹرول پمپ پر کھڑے ہو کر 112 روپے فی لٹر پٹرول خریدنے والے عوام کے تبصرے اور بددعائیں سن سکے تو اسے اندازہ ہو جائے کہ نوازشریف کی جماعت کو ووٹ دینے والے عوام حکومت سے کس قدر بے زار ہو چکے ہیں۔ صرف پٹرول کی بات نہیں ہے۔ سبزی‘ دالیں‘ گھی‘ چینی‘ گندم کا آٹا‘ چائے کی پتی یعنی ضروریات زندگی کی عام اشیاءاتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ پیپلزپارٹی کے دور عذاب سے نجات پانے کی خوشیاں دھری کی دھری رہ گئی۔ حالات جب پہلے سے بھی تلخ تر ہو چکے ہوں تو پھر نئے حکمرانوں کی آمد کا جشن کون منا سکتا ہے۔ کینسر کے ظالم مرض کا شکار ہو کر چند ماہ پہلے زندگی سے منہ موڑ لینے والے شاعر اطہر ناسک نے کہا تھا کہ....
عید کے دن بھی قدم گھر سے نہ باہر نکلے
جشن غربت جو مناتے تو مناتے کیسے
ہم پر یہ کیسا وقت آن پڑا ہے کہ عوام کی اکثریت اب غربت‘ مہنگائی اور فاقوں کا شکار ہیں اور عید کی خوشیاں بھی ان سے روٹھ گئی ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جن کے گھروں سے بجلی کے میٹر بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اتار لئے گئے ہیں لیکن وہ کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی صرف دو تین ہزار روپے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے گھروں کی بجلی بحال نہیں کروا سکے۔ باقی احمد پوری نے کہا تھا کہ....
ساری بستی میں فقط میرا ہی گھر ہے بے چراغ
تیرگی سے آپ کو میرا پتہ مل جائے گا
اگر ایک گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تو وہ کسی ایک غریب خاندان کی مجبوریوں اور بے بسی کی کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے مگر یہاں تو غریبوں کی ساری بستی ہی اندھیروں میں ڈوب چکی ہے۔ جن غریب فیملیوں کے پاس بجلی اور سوئی گیس کے بل ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں وہ اپنے لئے دال روٹی کا انتظام کیسے کرتے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ میرے شہر میں سیلاب کے آفت زدگان میں آٹا‘ گھی اور چینی تقسیم کرنے والے کچھ اہل ثروت دوستوں نے مجھے بتایا کہ ان کے گھروں اور دفاتر کے باہر سیلاب سے متاثر افراد کم اور مہنگائی سے متاثر خاندان زیادہ جمع ہو گئے تھے۔ اس لئے سیلاب زدگان کے لئے اکٹھا کیا جانے والا بہت سارا سامان مہنگائی کے عذاب سے بے دم ہو جانے والے لوگوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے والے ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ان قرضوں سے اس ملک کی غربت‘ مفلسی اور بھوک کا علاج ممکن نہیں ہے۔ یہ قرضے صرف ہمارے کرپٹ حکمرانوں کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں اور قوم کا غریب طبقہ ان قرضوں کو صرف خود کشیوں کی شکل میں اتارتا ہے
ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہا دے نہر میں
قتل طفلاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں
میں حیران ہوں کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مہنگائی کے خلاف چیخنے چلانے والی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے برسراقتدار آنے کے بعد ”عوام دوستی“ کے نام پر یہ انقلابی فیصلہ کیا ہے کہ تین سال کے اندر گیس 50 فیصد تک مزید مہنگی کر دی جائے گی اور بجلی کے نرخوں میں بھی 30 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ اگر اسی بدترین دور کو آنا تھا تو پھر پیپلز پارٹی کی حکومت میں کیا خرابی تھی۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں مہنگائی کی وجہ حکمرانوں کی کرپشن اور نااہلی کو قرار دیا جاتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں بے لگام مہنگائی کیا حکمرانوں کی دیانت داری اور اہلیت کا ثبوت ہے؟ عوام کے لئے یاد ماضی بھی عذاب ہے اور موجودہ دور بھی مختلف نہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں صرف فرق یہ ہے کہ اس دور میں پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ کو جھوٹ بولنے کا فرض ادا کرنا پڑتا تھا۔ اب یہ ذمہ داری وفاقی وزیر اطلاعات کو سونپ دی گئی ہے۔ اس دور میں مہنگائی ختم کرو مسلم لیگ (ن) کا نعرہ تھا اب یہ نعرہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور مہنگائی میں اضافے کا ”مقدس فرض“ وزیر خزانہ اسحاق ڈار انتہائی دانشمندی سے ادا کر رہے ہیں۔ کلیم عاجز کا یہ ایک مصرع ہی حالات کی پوری طرح عکاسی کر دیتا ہے....ع
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو