17 ستمبر کے نوائے وقت میں برادرم اسداللہ غالب کا کالم ’’باغی جاوید ہاشمی‘‘ کے عنوان سے پڑھا۔ جاوید ہاشمی کے خلاف لکھے گئے اس کالم میں جناب مجیدنظامی کا بھی حوالہ دیا گیا کہ انہوں نے آصف زرداری کو مردحر کا خطاب دیا تھا۔ محترم مجید نظامی کا حوالہ دیتے ہوئے غالب صاحب شاید مجیدنظامی کے ان اعلی اور ارفع احساسات کو بھول گئے جو ایڈیٹر نوائے وقت جاوید ہاشمی کے حوالے سے اپنے دل میں رکھتے تھے۔ مجید نظامی جچی تلی بات کرنے کے عادی تھے اور انکی رائے کسی بھی سیاست دان کے بارے میں اتنی معتبر، ٹھوس اور درست ہوتی کہ ہم جیسے ایک سو صحافی مل کر بھی ان جیسا پختہ تجزیہ نہیں کر سکتے۔ مجید نظامی لکھتے ہیں کہ ’’جاویدہاشمی نے سیاست کا آغاز ایک مقبول طالبعلم رہنما اور پرجوش نوجوان کے طور پر کیا۔ اسکے مزاج میں مصلحت اور مفاہمت کے جراثیم بہت کم دیکھنے میں آئے حالانکہ ملتان کے سیاست دانوں اور پیرزادوں کی عام شہرت یہی ہے کہ وہ اقتدار کے ایوانوں سے بہت کم بگاڑتے ہیں مگر جاوید ہاشمی جیل میں اپنے علاقے کے جاگیرداروں، مخدوموں اور وڈیروں کی اقتدار پرستی اور مصلحت پسندی کا کفارہ ادا کر رہا ہے۔‘‘
مجید نظامی کی یہ رائے تو جاوید ہاشمی کی شخصیت کے حوالے سے تھی اور جاوید ہاشمی کی کتاب کے بارے میں مجید نظامی کا یہ ارشاد ہے کہ ’’اسلام، پاکستان، جمہوریت اور پاک فوج سے یکساں محبت کرنیوالے اس نظریاتی سیاست دان کی یہ سرگزشت (ہاں، میں باغی ہوں) ان تمام سیاسی کارکنوں کو توجہ سے پڑھنی چاہئے جو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا نہیں ہوئے اور نظریہ، لگن، خلوص، محنت اور جماعتی وابستگی کے بل بوتے پر سیاست واقتدار کی بلندوبالا چوٹیوں کو سر کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔‘‘ جاوید ہاشمی نے بجا طور پر اپنی کتاب میں مجید نظامی کو قوم کا ضمیر قرار دیا تھا اور یہ اعتراف بھی انکی کتاب میں موجود ہے کہ مجید نظامی نے طالب علمی کے دور سے لے کر عملی سیاست کے ادوار میں جاوید ہاشمی کو بتائے بغیر اس کی سرپرستی کی اور جب جنرل مشرف کے دور میں جاوید ہاشمی نیب کی قید میں تھے تو مجید نظامی کی بزرگانہ شفقت کا یہ عالم تھا کہ وہ فوجی حکومت کے قیدی سے ملاقات کیلئے خود تشریف لے گئے۔ جاوید ہاشمی کو اکثر جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت کا وفاقی وزیر بننے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور وہ صحافی بھی جاوید ہاشمی کے مارشل لا کے دور میں وزیر رہنے پر تنقید کرتے ہیں جو جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف دونوں کی فوجی حکومتوں کے قصیدے لکھتے رہے ہیں۔ بہرحال ایک فوجی آمر جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں شامل ہونا یقیناً ایک قابل اعتراض بات ہے مگر ضیاالحق کے دور حکومت ہی میں اسکے ساتھ شدید اختلاف کرنا بھی باغی جاوید ہاشمی کا کمال تھا جب فوجی ڈکٹیٹر نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر کے الیکشن کیلئے اپنا امیدار خواجہ صفدر (وفاقی وزیر خواجہ آصف کے والد) کو نامزد کر دیا اور خواجہ صفدر کو قومی اسمبلی کا سپیکر بنوانے کیلئے جنرل ضیاالحق نے ہر حربہ استعمال کیا تو جاوید ہاشمی نے ضیاالحق کے امیدوار کی کھل کر مخالفت کی اور اپنے ساتھی ارکان اسمبلی سے مل کر خواجہ صفدر کو شکست بھی دلوائی۔ جنرل پرویز مشرف کے فوجی دور حکومت میں جہاں تک مجھے یاد آ رہا ہے جاوید ہاشمی کو کم از کم دس مرتبہ گرفتار کیا گیا اور فوجی آمریت کے اس دور میں جاوید ہاشمی کو بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور جاوید ہاشمی کو ایک مرتبہ نہیں جتنی دفعہ بھی گرفتار کیا گیا اسے ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنا کر جنرل پرویز مشرف کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ فوجی آمریت کے اسی سیاہ ترین دور میں جاوید ہاشمی کو آخری مرتبہ اکتوبر 2003 کی ایک شام کو گرفتار کیا گیا اور پھر چار سال کی طویل قید کے بعد اگست 2007 میں سپریم کورٹ نے جاوید ہاشمی کی ضمانت منظور کی۔ ایک فوجی حکومت کے دور میں جتنی دفعہ بھی جاوید ہاشمی کو گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے بعد جس طرح جاوید ہاشمی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اسکی وجہ جنرل پرویز سے باغی سیاستدانوں کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ نیب کی قید کے دوران جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ ن چھوڑ کر فوجی حکومت کی حمایت کرنے پر ہر طرح کی پیشکش کی گئی جو عہدے پرویزالہی اور چودھری شجاعت کو بعد میں پیش کئے گئے یہ سب عہدے جاوید ہاشمی کیلئے بھی حاضر تھے مگر جاوید ہاشمی نے اپنے جسم پر تشدد بھی قبول کیا، تقریباً سوا سال تک قید تنہائی کا عذاب بھی برداشت کیا اور پھر مجموعی طور پر لمبی جیل بھی کاٹی مگر انکی استطاعت اور آہنی ارادوں کو فوجی آمریت شکست دینے میں کامیاب نہ ہوئی۔ جاوید ہاشمی کی یہ جنگ، جدوجہد اور قربانیاں اپنی ذات کیلئے نہیں تھیں بلکہ انہوں نے یہ سب کچھ پاکستان میں جمہوریت کے روشن مستقبل کیلئے کیا۔ جب جاوید ہاشمی جنرل پرویز مشرف کے دور میں قید تھے تو محترم مجیدنظامی نے ان کیلئے ایک دعا مانگی تھی کہ ’’اللہ تعالی جاوید ہاشمی کو اپنے دشمنوں کے شر اور دوستوں کی نادانی سے محفوظ رکھے۔‘‘ آج اگر مجید نظامی زندہ ہوتے تو میرا یقین ہے کہ وہ جاوید ہاشمی کو انکے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے عملی کوشش بھی ضرور کرتے۔ جنرل مشرف کے دور کی ہی بات ہے کہ جب پہلی دفعہ سوا سال کیمپ جیل لاہور میں گزار کر جاوید ہاشمی، جناب مجیدنظامی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انکی بے پناہ شفقتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے مجید نظامی سے پوچھا کہ آپکی مجھ پر اتنی زیادہ مہربانیوں کی وجہ کیا ہے؟ مجید نظامی کا مختصر جواب تھا کہ ’’کیا ہم آنکھیں نہیں رکھتے‘‘۔ جاوید ہاشمی کی کارکردگی کو جانچنے اور پرکھنے کیلئے مجید نظامی جیسی آنکھوں اور بصیرت کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ہم جیسے اندھے جاوید ہاشمی کی سیاسی اور قومی خدمت کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکتے۔ عقل کے اندھوں کو سیدھا نظر آ ہی نہیں سکتا۔
باغی جاوید ہاشمی
Sep 19, 2014