ہم ایک ماہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی باتیں سُن رہے ہیں۔ یہ سب باتیں وہی ہیں، جو ایک عام پاکستانی کے ذہن میں موجود ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اس میں قانون کی بالادستی ہونی چاہئے۔ زبردستوں کو زیر دستوں پر ظلم کرنے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ بااختیاروں کو بے اختیاروں کو دبانے کا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ ہم ایک دین دار قوم ہیں۔ ہمارے لئے قرآن اور سُنت ایسے راستے ہیں جن پر چل کر ہماری دنیا اور عاقبت سنور سکتی ہے۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں سچ بولنا چاہئے، ہمیں باکردار ہونا چاہئے۔ دوسری اقوام کی جب ہم مثالیں دیکھتے ہیں تو ان اقوام کے سامنے نہ تو قرآن مجید جیسی مقدس کتاب ہوتی ہے اور نہ ہی سرکارِ دوعالم حضرت محمد مصطفی ؐ جیسی مقدس ہستی ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ دیگر اقوام نے اپنے ملک و قوم کے لئے خود مثالیں بناتی ہیں۔ دیگر ممالک میں انسان کی قدر و منزلت ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکا نہیں کرتے۔ قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ ان ممالک کے حکمران بھی سُکھی ہیں اور عوام بھی سُکھی ہیں۔
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہ بات بات سُن سُن کر ہمارے کان پک چکے ہیں کہ ہمارا ملک کرپشن میں ’’لک لک ‘‘ بلکہ ’’گلے گلے‘‘ تک دھنسا ہُوا ہے۔ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اس ملک میں بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا عہدیدار کرپشن کی گنگا میں اشنان کرنے کو جائز سمجھتا ہے۔ اس ملک میں حمام شاید زیادہ ہیں اس لئے ان حماموں میں سب ننگے ہیں۔ یہاں تو کرپشن کرنے والے بھی کہتے ہیں کہ یہاں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور تھانے کچہری کی کرپشن کی داستانیں تو کسی ریڑھی بان یا کسی محکمے کے چپڑاسی سے سُنی جا سکتی ہیں۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کرپشن کی لذیذ حکایات سُنا کر نوجوان نسل کو مست کر رہا ہے۔ جب ہمارا کلچر ہی کرپشن سے آلودہ ہو یعنی حال مستوں اور مال مستوں کی تعداد ہی اتنی زیادہ ہو جائے تو نئی نسل کو وجد میں لانے کیلئے کسی بھی کرپشن کی لذیذ حکایت کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ قادری صاحب اور عمران خان کی باتوں پر غور کرنا چاہئے۔ کیا یہ حضرات ملک و قوم کو ایمانداری، سچائی، قانون کی بالادستی، غریب کی دست گیری اور ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی باتیں نہیں کر رہے۔ اگر دھرنے والے شہر اقتدار میں بیٹھ گئے ہیں تو ان کے مسائل ٹھنڈے دل سے سُننے چاہئیں۔ جس شخص کی تنخواہ آٹھ دس ہزار ہے یا اس سے بھی کم ہے یا جو لوگ بے روزگار ہیں اور دو وقت کی روٹی میسر نہ ہونے پر خودکشیاں کر رہے ہیں ان کے مسائل پر کس نے کان دھرنے ہیں؟ اگر حکومت پہلے دن سے قادری صاحب اور عمران خان کی باتوں کو سنجیدگی سے سُنتی اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے اقدامات اُٹھاتی تو آج دھرنا ختم ہو چکا ہوتا۔ جب عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے بجائے پولیس ان پر شب خون مارتی ہے، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر سیدھی گولیاں چلاتی ہے تو کیا عوام کے غصے میں کمی آ سکتی ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر محمد نوید اظہر صاحب نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا تیس دن کے دھرنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آئی؟ یا پہلے سے بھی زیادہ ہوئی ہے؟ کیا پٹرول کی قیمت سستی ہوتی ہے؟ کیا اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کمی واقعی ہوئی ہے؟ دھرنوں کا جواب مہنگائی کم کر کے دیا جا سکتا تھا۔ تھانہ کلچر، دن دیہاڑے قتل و غارت، چوریوں، ڈکیتیوں، اغوا، گھریلو تشدد، لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پر قابو پانے سے دیا جا سکتا تھا۔ اپوزیشن کا کام تو سخت تنقید کرنا ہوتا ہے اور حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے لیکن حکومت کا کام جلتی پر پانی ڈالنا ہوتا ہے۔ جب حکومت کے وزیروں کے پاس دھرنوں پر ڈالنے کے لئے تیل کے بڑے بڑے کنستر ہوں گے تو آگ کیسے بُجھے گی؟ مسائل زدہ دھرنے میں شریک لوگوں کا مذاق اُڑاتے اور ایک دوسرے کے کردار پر کیچڑ اُچھالنے سے معاملات بہتری کی طرف نہیں جا سکتے۔ کاروبار کرنا شجر ممنوعہ نہیں ہے، ہر کسی کا حق ہے کہ کاروبار کرے۔
اگر حکمرانوں کو کاروبار کا ملکہ ہے تو جم جم کریں لیکن پھر کاروبار ہی کریں۔ اسلام نے دو شادیوں کی اجازت ضرور دی ہے لیکن ساتھ ہی انصاف کرنے کی شرط بھی رکھ دی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ حسنی مبارک، صدام حسین اور کرنل قذافی کا انجام کیوں بُرا ہوا حالانکہ ان کے ممالک میں روٹی، کپڑا اور مکان کے مسائل بھی نہیں تھے، بس ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اقتدار، حکومت، اختیارات اور مال و زر کی خواہش نے ان حکمرانوں کی آنکھوں پر غفلت کے پردے ڈالے رکھے۔ کوئی لیڈر انقلاب لا سکے یا نہ لا سکے، ہمارا ملک نہ تو علامہ اقبال کے خواب کے مانند نظر آتا ہے اور نہ بانی ٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی سوچ کے مطابق چل رہا ہے۔
دھرنے کی نوبت کیوں آئی؟
Sep 19, 2014