یہ ستمبر کا آخری ہفتہ چل رہا تھا، جب قاصد نے اہم خط اُس نوجوان تک پہنچایا جو بجا طور پر لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھا۔ نوجوان نے مشتاق آنکھوں سے خط کھولا تو چند سطری خط پڑھتے ہی افسردگی کی ایک دبیز لہر اسکے چہرے پر منجمد ہو گئی۔ یہ خط کوئی محبت نامہ نہیں بلکہ حکم نامہ تھا،باپ کی طرف سے اُسے جلد از جلد اپنے پاس پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی،مہینوں کا سفر دنوں میں طے کرتا کڑیل جوان باپ کے پاس پہنچا تویہ 6اکتوبر کی ایک سرد اور ظالم صبح تھی۔ محافظوں نے ملاقات سے پہلے اُس سے سارے ہتھیار باہر رکھوالیے۔ بیٹا ادب سے سر جھکائے خیمے میں داخل ہوا تو باریک جالی دار پردوں سے نیلگوں روشنی چھن چھن کر اندرونی ماحول کو پراسرار بنارہی تھی، باپ نے گھوم کر جوان رعنا بیٹے کو دیکھا توغصے اور کرب کے ملے جلے تاثرات اسکے چہرے پر ابھر آئے ’’تم نے مجھ سے غداری کی، مصطفیٰ! تم نے مجھ سے غداری کی‘‘۔یہ کہہ کر باپ خیمے کے عقبی حصے میں تنے ہوئے جالی دار پردے کے پیچھے تخت پر جابیٹھا، الزام سن کر حیرت زدہ بیٹے نے ذہن میں آنیوالے بد خیالات کوجھٹکا اور اپنے والد کے پیچھے ہولیا۔ نوجوان ذرا آگے بڑھا تو اسکی آنکھوں سے معصومیت ٹپک رہی تھی اور لہجے میں جیسے پوری صدی کا سچ بھر آیا تھا ’’میرے آقا! میں نے آپ سے غداری نہیں کی!‘‘لیکن دوسری جانب بوڑھے باپ کے چہرے پر تو جیسے دنیا بھر کا قہر امڈرہا تھا، غصے میں اُس نے مخصوص اشارہ کیا’’ آگے بڑھو اور پکڑ لو اِسے!‘‘۔ حکم ملتے ہی پہلو سے دس بارہ گونگے بہرے محافظ نکلے اور نوجوان پر پل پڑے، کافی دیر زور آزمائی کے بعد آخر کار محافظ مخصوص رسے کی مدد سے نوجوان کاگلہ گھونٹنے میں کامیاب ہوگئے توامسیہ کا ترک شیر زمین پر ڈھ گیا۔ پردے کے پیچھے بیٹھ کر بیٹے کی موت کا منظر دیکھنے والا باپ آگے بڑھا اور بیٹے کو گود میں بھرلیا۔’’مصطفی ! مصطفی!‘‘باپ مردہ بیٹے میں زندگی کی رمق تلاش کررہا تھا کہ اسکے لباس سے ایک خط باپ کے ہاتھ لگ گیا، خط کی چند سطریں پڑھ کر ہی باپ کی چیخیں نکل گئیںـ’’بابا! مجھے یقین ہے کہ یہ خط میری موت کے بعد ہی آپکے ہاتھ لگے گا، صورتحال ہی ایسی بن چکی ہے کہ میری موت ہی میری معصومیت اور بے گناہی کا ثبوت دے سکتی ہے، میں غدار ہوتا تو خالی ہاتھ آپکے سامنے نہ آتا،میںتو چاہ کر بھی آپ سے غداری نہیں کر سکتا، میں ایسا بیٹا نہیں بننا چاہتا جو باپ کا قاتل کہلائے، اسی لیے میں خود چلا آیا‘‘۔ خط پڑھ کر باپ بیٹے کی لاش سے لپٹ کے پہروں روتا رہا ’’مصطفی! کاش تو نہ آیا ہوتا صرف تیرا خط ہی آگیا ہوتا‘‘ اپنے ہی بیٹے کا قاتل بننے والا یہ بوڑھا باپ کوئی اور نہیں بلکہ ترک عثمانیوں کا ذی حشم سلطان سلیمان عالیشان تھا اور باپ کے ہاتھوں قتل ہونے والا عظیم ترک شہزادہ مصطفی تھا، جو سلطنت کی افسر شاہی اور حرم کی سازشوں کا شکار ہوکر بھرپور جوانی میں ہی اپنے باپ سلطان سلیمان خان کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلا گیا۔مصطفی اپنے باپ کے ہاتھوں موت کے منہ میں کیسے گیا؟آخر وہ کون تھا جس نے سلطان کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کیاتھا؟وہ کون تھا جس نے شہزادہ مصطفی اور سلطان سلیمان کے درمیان ’’درمیانی‘‘ راہ نکالنے کی بجائے اُسے ایسے حالات میں اپنے باپ کیساتھ براہ راست ملاقات کیلئے بھیج دیا جو کسی صورت بھی موافق نہ تھے۔ سازشیوں نے سلطنت میں ایک قبر تیار کردی تھی، جس میں سلطان یا شہزادے میں سے کسی ایک کو جانا تھا؟تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قبر کھودنے والے اور حالات کو اس سنگین صورتحال تک پہنچانے والے کوئی باہر سے نہ آئے تھے، یہ سلطان سلیمان اور شہزادہ مصطفی کے اپنے اور قریبی لوگ ہی تھے۔ ایک شہزادہ مصطفی کی کہانی پر ہی کیا موقوف ؟ ایسے واقعات سے پوری تاریخ بھری پڑی ہے، جب اپنوں کی کوتاہ بینی اور سازشوں نے ہی سلطنتوں کے شیرازے بکھیر کر رکھ دیے۔اب میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیں۔ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچے تو امید تو یہی تھی کہ اس مرتبہ ایک مختلف نواز شریف دیکھنے کو ملے گاجو باخبر ہوگا کہ اسکے چاروں اطراف میں کیا ہورہا ہے اور کون کررہا ہے؟ جسے پتہ ہوگا کہ کون اُس کا دشمن ہے اور کون اسکی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے؟ جسے پتہ ہوگا کہ اسکے مصاحبین میں سے کون کون خود ’’تخت‘‘ کو حریص نظروں سے دیکھ رہا ہے؟ کون ہے جو نواز شریف کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے؟ کون ہے جو تیسری مرتبہ بھی نواز شریف کے پائیدار اور پرامن اقتدارکے راستے میں روڑے اٹکارہا ہے؟ نواز شریف اگر تاریخ کے طالب علم ہوتے تو شہزادہ مصطفی کے واقعے سے ہی بہت کچھ سیکھ سکتے تھے کہ یہ سب کچھ اُسی افسر شاہی کا کیا دھرا ہے جس پر وہ حکومت چلانے کیلئے سارا انحصار کیے بیٹھے ہیں۔قارئین کرام!! شہزادہ مصطفی کی لاش کو دو دن تک شہر پناہ کے باہر لٹکاکر رکھا گیاتاکہ مصطفی کے حامی دیکھ لیں کہ اب وہ زندہ نہیں رہا۔تیسرے دن مصطفی کی لاش اتارکر اسے غسل دیا گیا۔ جب کفن اوڑایا جاچکا تو سلطان سلیمان اُس سے لپٹ کر پھر رونے لگا۔ اس موقع پر مصطفی کیخلاف سازشوں کے تانے بانے بننے والا وزیراعظم رستم پاشا گردن ٹیڑھی کرکے آگے بڑھا اور سلطان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا’’آقا اپنے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں، آپ نے اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکایا ہے، آپ قاتل نہیں ہیںاور اپنے بیٹے کے قاتل تو ہرگز نہیں ہیں،آپ سے کوئی غلطی کیسے ہوسکتی ہے، آپ تو ہمارے سلطان ہیں !‘‘ یہ سن کر سلیمان تڑپ اٹھا’’بولو رستم بولو کہ یہ میں نہیں ہوں، یہ بیٹا میرا بیٹا نہیں ہے، یہ سلطنت میری سلطنت نہیں ہے‘‘۔ سلیمان دھاڑیں مارکر رورہا تھا’’مصطفی! کاش تم نہ آتے، تمہارا یہ خط آجاتا، میں باقی رہ جاتا، میرا بیٹا باقی رہ جاتا، میری سلطنت باقی رہ جاتی، مصطفی! تو سچا تھا، لیکن جو جھوٹے ہیں وہ کہاں ہیں؟‘‘۔ افسوس صدافسوس! سلطان سلیمان مصطفی کی لاش سے لپٹ کر جن جھوٹوں کو تلاش کرنے کی کوشش کررہا تھا، وزیراعظم رستم پاشا کی شکل میں وہ جھوٹے اسکے آس پاس ہی موجود تھے۔ پہلی دو حکومتیں گنوانے کے بعد میاں نواز شریف اپنی تیسری حکومت کی ’’لاش‘‘ سے لپٹے ہوئے ہیں اورسازش کرنیوالے جھوٹوں کو تلاش کررہے ہیں، حالانکہ یہ جھوٹے سازشی تلاش کرنے کیلئے اُنہیں دشمن کی صفوں میں جھانکنے کی ضرورت ہرگز نہیں ، اُسے ڈھونڈنے کیلئے یہی کافی ہے کہ جھکی ہوئی ٹیڑھی گردن کیساتھ کون انکے سامنے حاضر ہوکرکہتا ہے ’’میاں صاحب! موجودہ صورتحال کو دل پر نہ لیں، آپ نے تو ہر کام عوام کی رضا کیلئے کیا ہے، موجودہ صورتحال کے ذمہ دار آپ نہیں ہیں اور اپنی حکومت کو صرف پندرہ ماہ میں ہی اس حالت کو پہنچانے کے تو بالکل بھی ذمہ دار آپ نہیں ہیں، آپ سے کوئی غلطی کیسے ہوسکتی ہے، آپ تو بادشاہ ہیں؟‘‘۔اپنی سیاست کی لاش سے لپٹ کر روزانہ ماتم اور گریہ زاری کرتے عمران خان کیلئے بھی یہی سبق ہے کہ وہ ٹیڑھی گردن والے اپنے مصاحب کو تلاش کریں، جو روزانہ انہیں یقین دلاتا ہے ’’خان صاحب! فکر نہ کریں ، اپنی سیاست کو اس حال کو پہنچانے کے ذمہ دار آپ نہیں ہیں، آپ سے کیسے غلطی ہوسکتی ہے، آپ تو بادشاہ ہیں حضور!‘‘۔
آپ تو بادشاہ ہیں حضور!
Sep 19, 2014