ملتان اور مظفرگڑھ کا سیلاب جب باراتیوں کی کشتی الٹ گئی

Sep 19, 2014

سلیم ناز
شیر شاہ مظفرگڑھ کے سیلابی ریلے میں کشتی دولہا دلہن سمیت 35 باراتیوں کو لے کر اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ کشتی ابھی محفوظ مقام سے آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر تھی کہ ایک ہیلی کاپٹر کشتی کے اوپر سے تھوڑی بلندی پر گزرا کیونکہ اس نے کنارے پر موجود ہیلی پیڈ پر لینڈ کرنا تھا۔ ہیلی کاپٹر کا پریشر اتنا تھا کہ اس کے دباؤ میں کشتی ہچکولے کھانے لگی  باراتی اپنی جگہ سے اٹھنے لگے تو کشتی کا توازن برقرار نہ رہا اور وہ الٹ گئی۔ کناروں پر کھڑے لوگوں نے شور مچا دیا۔ ریسکیو نے فوراً  دوڑ لگائی اور پانی میں کود گئے۔ اس کے باوجود دلہا اور شیر خوار بچے سمیت 17 افراد لقمہ اجل ہو گئے جبکہ دلہن سمیت 18 افراد زندہ بچا لئے گئے۔ ڈوبنے والوں کو بچاتے ہوئے پاک فوج کا نائب صوبیدار اناب گل بھی تندو تیز موجوں سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔  سیلابی ریلے کی نذر ہونے والا دولہا زاہد مظفر آباد کا رہائشی تھا جس کی شادی سیلاب آنے سے دو روز قبل مظفرگڑھ کے علاقے موضع سنکی میں اپنے ماموں کی بیٹی مشعل کے ساتھ ہوئی۔ بارات کے واپسی سے قبل انتظامیہ نے شیر شاہ بند توڑ دیا۔ مظفرگڑھ سے زمینی رابطہ منقطع ہونے سے بارات لڑکی والوں کے گھر ٹھہر گئی۔ انتظامیہ نے جب بذریعہ کشتی آمدورفت کا سلسلہ شروع کیا تو موت بے چاروں کو وہاں کھینچ کر لے گئی۔ زندہ بچ جانے والوں کے مطابق 25 باراتی سمیت 35 لوگ ہنستے کھیلتے کشتی میں سوار تھے کہ نصف کلومیٹر کے فاصلے پر موت کے  فرشتے نے دبوچ لیا۔ 18 سالہ دلہن عروسی لباس میں تھی۔ ابھی ہاتھوں کی مہندی کے رنگ کھل رہے تھے کہ جیون ساتھی موت کی وادی میں چلا گیا۔ دولہا زاہد بسلسلہ روزگار کراچی میں مقیم تھا اور شادی کے لئے گھر آیا ہوا تھا۔ دلہن رو رہی تھی کہ ابھی زندگی کا سفر شروع ہی ہوا کہ بیوگی کا صدمہ جھیلنا پڑ گیا۔ جس روز ان کے گھر ولیمہ کی تقریب ہونا تھی 6 جنازے اٹھے تو کہرام مچ گیا۔
ذرائع کے مطابق کشتی میں 28 افراد کی گنجائش بتائی گئی مگر 35 افراد سوار ہو گئے۔ جب کشتی کنارے کے نزدیکی پہنچی تو ایک ہیلی کاپٹر اوپر آ گیا۔ کشتی میں سوار خواتین اور بچے ہیلی کاپٹر کی ہوا اور شور سے گھبرا کر اٹھے تو کشتی الٹ گئی۔ اس دوران ایک کشتی میں سماجی تنظیم کے 7 افراد ریسکیو کے لئے جا رہے تھے انہوں نے الٹنے والی کشتی کے سواروں کو اپنی لائف جیکٹ اتار کر پھینکی جس سے 7 افراد ڈوبنے سے فوری بچ گئے۔ باقی 7 افراد کو بھی انہوں نے نکال لیا۔ اس کے بعد پاک فوج کی دیگر کشتیاں پہنچ گئیں۔ انہوں نے مزید 4 افراد کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ یہ آپریشن شام ساڑھے 7 بجے تک جاری رکھا گیا۔ کشتی کے ملاح نائب صوبیدار کی لاش حساس ادارے کے حوالے کر دی گئی جس نے کئی افراد کو نکال کر ان کی جان بچائی۔ جس وقت ان کی نعش دریائے چناب سے نکالی گئی تو اس وقت نائب صوبیدار اناب نے ایک بازو میں خاتون جبکہ دوسرے بازو میں معصوم بچی تھامی ہوئی تھی۔ شہید نے اپنی جان کا نذرانہ دیکر بھی ان معصوموں کو سیلاب کی بے رحم موجوں میں گم نہیں ہونے دیا۔ نائب صوبیدار اناب شہید کی نماز جنازہ ملتان میں ادا کی گئی جس کے بعد ان کی میت ان کے آبائی گاؤں پلندری آزاد کشمیر کیلئے روانہ کردی گئی۔ شہید نے لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بچے چھوڑے ہیں۔کشتی حادثے میں ڈوبنے والے 2 نوجوانوں 18 سالہ بلال اور 19 سالہ حذیفہ کا تعلق کوٹ ادو سے تھا جو چیف منسٹر سکالرشپ ٹیسٹ دینے کے لئے ملتان آرہے تھے اسی حادثہ میں ہمت اور جوانمردی کا واقعہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کس طرح ممتا نے جوش مارا۔ کشتی میں سوار ماں نے اپنی جان پر کھیل کر 3 کمسن بچوں کو بچا لیا۔ جب کشتی ہچکولے کھانے لگی تو بہادر ماں نے ایک سالہ بیٹے کو کندھے پر بٹھا کر دوسرے بچے کا بازو پکڑ لیا اور پانی کی موجوں سے ٹکراتی ہوئی کنارے پر پہنچی بچوں کو کنارے پر موجود لوگوں کے حوالے کیا اور دیوانہ وار واپس پلٹی ‘ پانی میں ڈوبتے ہوئے اپنے تیسرے بچے کو موت کے منہ سے کھینچا اور کنارے پر پہنچتے ہی بے ہوش ہو گئی کشتی میں ایک اور بدنصیب ماں بھی سوار تھی جس کی گود میں حادثے کے وقت 4 سال کا بچہ لیٹا ہوا تھا جو کشتی الٹتے ہی لہروں کی نذر ہو گیا اور ممتا ہاتھ ملتے رہ گئی۔  اس کے علاوہ بھی ملتان میں کشتی الٹنے سے مزید دو واقعات رونما ہوئے جن میں سوار 19 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔ نواب پور کے قریب اکبر بند کے علاقے میں متاثرین کو لانے والی کشتی الٹ گئی تاہم ڈوبنے والے افراد کو پانی سے نکال لیا گیا۔ کشتی الٹنے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرے واقعہ میں سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے افراد کو کشتی کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کیا جارہا تھا کہ بنڈھ سندیلہ کے قریب کشتی الٹ گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ریسکیو1122 کی کشتی جائے وقوعہ کے قریب موجود تھی انہوں نے سیلابی پانی میں ڈوبنے والے تمام افراد کو بحفاظت نکال لیا۔ کشتی پر سات افراد سوار تھے۔ دریائے چناب کے ہیڈ محمد والا کے قریب چناب چوک کا رہائشی 14 سالہ اختر بھی سیلابی پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا۔ دریائے چناب کے سیلابی ریلا نے شجاع آباد کے نواحی علاقہ خان پور قاضیاں میں 2 افراد کی جان بھی لے لی۔ مظفرگڑھ کا 35 سالہ جوان اپنی بیوی کے ہمراہ موٹر سائیکل پر خان پور قاضیاں آیا ہوا فلڈ بند کر موٹر سائیکل اور بیوی کو بٹھا کر کراس کر کے اپنے سسرال کے ہاں جا رہا تھا کہ پانی کے تیز بہاؤ سے بہہ گیا۔ ڈوبنے والا شخص کافی دیر تک پانی میں ہاتھ کھڑے کرتے رہا اور فلڈ بند پر موجود لوگ اسے ڈوبتا دیکھ رہے تھے۔ اس طرح خان پور قاضیاں کا رہائشی غلام رسول پہوڑ کو بھی سیلابی ریلا بہا لے گیا۔ مظفرگڑھ کے رہائشی نوجوان کی نعش مل گئی مگر تاحال غلام رسول پہوڑ کی نعش نہ مل سکی۔  اسی طرح سیلاب کی تباہی دیکھنے والا شخص بھی موٹر سائیکل سمیت سکندری نالہ میں گر کر ڈوب کے مر گیا۔ ڈوبنے والے شخص کی بیوی خدا کے واسطے میرے شوہر کو بچا لو کی آوازیں لگاتی چیختی چلاتی رہی۔ اتفاقی حادثہ کے بعد جب 45 سالہ شخص  کی موت کی خبر اس کے گھر پہنچی تو پورے گھر می کہرام مچ گیا۔ شوہر کو زندہ ڈوب کر مرنے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی خاتون پر سکتہ طاری ہو گیا۔ مرنے والا چونگی نمبر 1 کا رہائشی 45 سال نوید ربانی موٹر سائیکل پر اپنی بیوی کے ہمراہ سیلاب سے ہونے والی تباہی اور موجودہ صورتحال کو دیکھنے کے لئے ہیڈ محمد والا گیا جہاں ٹریفک پولیس اہلکاروں اور رضاکاروں نے انہیں آگے جانے سے منع بھی کیا لیکن وہ چلے گئے۔ سکندری نالہ پہنچنے پر وہ نہر کے کنارے موٹر سائیکل کھڑی کر کے  تقریباً 3 منٹ وہاں کھڑے رہے۔ واپس جانے لگے تو موٹر سائیکل کا گیئر لگا ہوا تھا اور انہوں نے گیئر نکالے بغیر ہی کک ماری تو موٹر سائیکل جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھی اور نوید ربانی موٹر سائیکل سمیت نہر میں گر گیا اور اپنی جان بچانے کے لئے پانی میں ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ 10 منٹ کے بعد ریسکیو 1122 کے تیراکوں نے اسے بچانے کے لئے چھلانگ لگائی اور جب اسے نکالا تو اس کے جسم سے روح نکل چکی تھی۔
جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں ابھی سیلاب 2010ء کے اثرات ختم نہ ہو پائے تھے کہ 2014ء حالیہ سیلاب نے تباہی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے۔ بھارت کے پانی چھوڑنے سے آنے والے سیلاب نے قیمتی جانوں‘ مال اسباب اور فصلوں کو نگل لیا۔ ملتان کے قرب و جوار میں قائم ہیڈ محمد والا پل اور شیر شاہ پل ملتان کو کوٹ ادو او مظفرگڑھ سے ملاتے ہیں انہی نہروں میں پانی کے بہاؤ کے پیش نظر دونوں اہم شاہراؤں پر کٹ لگا کر شہری آبادی کو تو بچا لیا مگر دیہی علاقوں میں ہونے والی تباہی کو نہ روک سکے اور نہ مال اس کا سدباب کر سکے ہیں۔ سیلابی   ریلے کی نذر ہونے والے باراتیوں اور دولہا کے لواحقین ابھی تک مسیحا کے منتظر ہیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے بھی صرف ان حلقوں کا دورہ کیا جنہیں مسلم لیگ ن کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔  اور دونوں اہم شخصیات نے حادثے کے متاثرین کے گھروں میں بھی جانا گوارہ نہیں کیا متاثرین کی امداد کی روزانہ بے شمار خبریں پڑھنے کو ملتی یں مگر عملاً کچھ نظر نہیں آتا واقفان حال تویہ بھی کہتے ہیں ہیڈ محمد والا اور پل شیر شاہ پر شگاف لگائے بغیر پانی آرام سے گزر سکتا تھا مگر وہاں پر موجود افسران نے جانی و مالی نقصان کی پرواہ کئے بغیر صرف مابعد سیلابی اثرات سے حاصل ہونے والے مفادات کو مدنظر رکھ کر بند توڑنے میں دیر نہیں لگائی جبکہ بعض لوگوں کا موقف تھا کہ اگر بند نہ توڑے جاتے تو ملتان اور مظفرگڑھ کی شہری آبادی زیر آب آ جاتی یہ پاکستان کی تاریخ کا 11 واں سیلاب تھا جو اپنے پیچھے تلخ و ناخوشگوار یادیں چھوڑ گیا ہے جن کے ہنستے بستے گھر اجڑ گئے ‘ کوکھ اجڑ گئی فصلیں تباہ ہوگئیں اور لاکھوں افراد گھر سے بے گھر ہو گئے۔ ان کا مداوا کون کرے گا؟ کیونکہ حکومت اور سیاستدانوں کے اعلانات تو محض دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔

مزیدخبریں