مولانا امجد خان
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا’’ زمین پر خشکی اور تری میں جو بھی فساد بپا ہوتا ہے۔ یہ سب تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو ہم تم پر زمین وآسمان کی نعمتوں کے دروازے کھول دیں گے۔
ان دو آیات پر غور کیا جائے تونظام کائنات اور نظام زندگی آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور سیدناحضرت محمد رسول اللہؐ کے طریقوں کو اپنا لیا جائے تو اس سے آخرت تو بن ہی جائے گی دنیا کی زندگی بھی آسان ہوجائے گی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نیکوکار خواہ غریب اور نادار کیوں نہ ہو ان کے چہرے پر وہ بشاشت اور سکون دکھائی دے گا جو مالدار کو نصیب نہیں ۔ اسی طرح جہاں اعمال کے انفرادی اثرات انسانی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اجتماعی زندگی بھی ان سے باہر نہیں ہے کیونکہ فرد سے ہی ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ چنانچہ جہاں تقویٰ اختیار کرنے پر پوری بستی اور پوری قوم کو نوازنے کا قرآن نے وعدہ کیا ہے وہیں ہر قرآن کریم نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر تم اس کے برعکس زندگی گزاروگے تو تمہیں نہ صرف زمین و آسمان کی برکات سے محروم کردیا جائے گا بلکہ تم کو شدید مصائب و آلام اورآفات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
امام مالکؒ سے کسی نے پوچھا کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ کون سی مصیبت رحمت ہے اور کون سے سزا اور عذاب کی صورت میں ہے تو آپ نے فرمایا جس مصیبت میں بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑ جائے وہ مصیبت رحمت بھی اور خدائی انعام بھی ہے کیونکہ بندے کو اس نے خدا کے قریب کردیا ہے اور جو مصیبت بندے کوخدا سے دور کر دے وہ مصیبت عذاب اور سزا (معاذ اللہ) ہے۔ کیونکہ اس نے بندے کو اپنے اس رب سے اور دور کردیا ہے۔
آج ملک کا بیشتر حصہ طوفانی بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہے اور ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم یہ چاہتے ہوئے بھی کہ خدا کے حضور توبہ کرلیں، اس سے غافل ہو رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات ہر مسلمان کو دل پر نقش کر لینی چاہئے کہ جو کچھ بھی کرنا وہ صرف اللہ نے ہی کرنا ہے۔ وہ اللہ سے جتنا دور بھاگے گا اتنا ہی پریشان ہوگا۔ سیدنا حضرت موسیٰؑ سے ایک بار افلاطون نے پوچھا کہ اگر تیر چلانے والا اللہ تعالیٰ ہو تو بندے کو اس سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے تو حضرت موسیٰؑ نے فرمایا بندے کو تیر چلانے والے کے پہلو میں چلے جانا چاہئے وہ بچ جائے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ کے سامنے سر سبجود ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ بالا ایمان انہی میں شامل فرمائے۔ (آمین)۔ آنے والی قدرتی آفات ہمیں اپنے اللہ پاک سے رجوع کرنے کا موقع دیتی ہیں ۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو آج یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ ہم نے خدائی احکامات سے غفلت کی انتہاء کردی ہے۔ فحاشی عریانی‘ سود خوری‘ رشوت‘ قتل و غارت‘ ڈاکہ زنی‘ شراب نوشی ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جب انسان گناہ کوگناہ سمجھنا چھوڑ دے۔ اس کے باوجود خدا کتنا مہربان اورقابل تعریف ہے کہ اس نے اپنے پیغمبرؐ کے رونے پر وعدہ فرما دیا کہ اگر آپؐ کی امت کے لوگ گناہ کرنے کے بعد توبہ کرتے رہیں گے تو وہ اپنے گناہوں سے بڑا اپنے رب کی رحمت کو پائیں گے جو کہ حقیقت میں اس سے بڑی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیںکثرت سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ بھی نہیں کیا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جوشخص کثرت سے توبہ کرتا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس سے محبت ہے اسی لئے تو اللہ تعالیٰ اسے توبہ کی توفیق عطاء فرمارہے ہیں۔ایک حدیث شریف میں حضور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ روزانہ صبح شام اللہ تعالیٰ اپنی شان کی مناسب ہاتھ دراز فرماتے ہیں تاکہ رات کو جو گناہ کرتے ہیں اگر صبح توبہ کریں تو انہیں معاف کردوں اور جودن کوگناہ کرتے ہیں وہ رات کو توبہ کریں تو انہیں معاف کردوں۔ سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ پتہ ہے توبہ کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کتنے خوش ہوتے ہیں پھر خود ہی مثال دی اور فرمایا ایک شخص بیابان جنگل میں سفر کر رہا تھا اونٹ پراس کا زاد راہ تھا۔ کہ تھکاوٹ کی وجہ سے اس کو نیند آنے لگی اور وہ سستانے کے لئے لیٹ گیا تھوڑی دیر بعد اٹھ کر دیکھا تو اونٹ نہ تھا۔ تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملا تو اب تھک ہار کے لیٹ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا کہ اس کی پھر آنکھ لگ گئی اچانک اس کی آنکھ جب کھلی تو اونٹ سامنے پایا تو خوشی سے بے اختیار کہنے لگا کہ اے اللہ تو میرا بندہ ہیں تیرا رب (اللھم انت عبدی وانا ربک) توفرمایا خوشی میں اس کو سمجھ نہ آئی کیاکہ بیٹھا تو فرمایا اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو خوشی ہوتی ہے جب اس کا بندہ اس کے سامنے توبہ کرتا ہے۔
لیکن توبہ کی حقیقت تب نصیب ہوگی جب توبہ بھی حقیقت مین ہو ۔ سیدنا حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ اصل توبہ کیسے ہوتی ہے؟
-1 :گزشتہ گناہ پر ندامت ہو۔-2 :خدا کے سامنے دل سے استفادہ کرے اور روئے۔-3 :آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔اگر دل میں چوری ہوکہ چلو دن کو گناہ کرتا ہوں رات کو معافی مانگ لوں گا توبہ توبہ نہیں مذاق ہے۔ توبہ تویہ ہے کہ میں نیاپنے محسن کی نافرمانی کیوں کی ہے؟ مرنے کے بعد میں نے جس کے پاس جانا ہے۔ اس کو ناراض کیوں کیا ہے؟ جب اس درد سے آنسو نکلیں گئے تو یہ آنسو اتنی تاشیر رکھتے ہیں کہ جہنم کی آگ بھی ان سے بجھ سکتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کریں اور اپنے خدا کو راضی کریںتو کوئی وجہ نہیں ہم اپنے مصائب سے نجات نہ پائیں گے۔ سیلاب زدہ گان کی مدد ہمار فرض ہے۔ پرور دگار تو چھوٹی سی چھوٹی نیکی پر بھی بخش دیتے ہیں۔ ایک کتے کو پانی پلانے والی عورت کی مغفرت ہوسکتی ہے تو اس مشکل گھڑی میں بندہ گان خدا کے ساتھ ہمدردی کر کے ہم خدا کی رحمت سے ذخیرہ کثیر اپنے نام کر واسکتے ہیں۔