حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: جب حضرت ابو بکر صدیقؓ نے وفات پائی تو بعض صحابہ کرام کہنے لگے کہ ہم انہیں شہداء میں دفن کریں گے اور جنت البقیع میں لے جائیں گے۔ میں نے کہا کہ اپنے حجرہ میں اپنے حبیب ؐ کے پاس دفن کروں گی، اس اختلاف میں تھے کہ مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا، میں نے آواز سنی کہ کوئی شخص کہتا ہے:
ضَمُّوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ۔
دوست کو دوست کے ساتھ ملا دو۔ جب میں بیدار ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس آواز کو سب نے سنا تھا یہاں تک کہ مسجد میں بھی لوگوں نے سن لیا۔
۔ شواھد النبوۃ (جامی) صفحہ نمبر263۔
۔حضرات القدس(بدر الدین سرہندی)صفحہ نمبر54۔
امام آجری کی روایت
۔ الشریعہ(آجری )کتاب جامع فضائل اہل البیت باب مذھب امیر المؤ منین علی۔ (1808) ۔ شواھد النبوۃ(جامی)صفحہ نمبر263۔
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ:
جب ان کے وصال کا وقت آیا تو انہوں نے صحابہ کرام ؓسے کہا کہ جب میں انتقال کر جائوں اور تم میری تجہیز و تکفین سے فارغ ہو جائو تو اس کمرہ کے دروازہ کے سامنے جانا جس میں حضور ؐ آرام فرما ہیں، وہاں جا کر رک جانا اور عرض کرنا:
السلام علیک یا رسول اللہ
یہ ابو بکر صدیق ہیںجو کہ اجازت کے طلب گار ہیں۔ اگر اجازت مل جائے اور بند دروازہ کھل جائے تو تم مجھے وہاں داخل کر دینا اور دفن کر دینا۔ اور اگر تمہیں اجازت نہ مل سکے تو تم مجھے جنت البقیع کی طرف لے جانا اور وہاں مجھے دفن کر دینا۔چنانچہ صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا۔ حضور ؐ کے روضہ ء اقدس پر حاضر ہو کر عرض گذار ہوئے۔
تو تالہ خود بخود گر گیا اور دروازہ خود بخود کھل گیا اور حجرہ مبارک کے اندر سے آواز آئی حبیب کو حبیب کے پاس داخل کر دو کیوں کہ حبیب سے ملاقات کے لئے حبیب بہت ہی خواہش مند ہیں۔