آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا ملک ہے، معیشت استوار ہے۔ پاکستانی افراد دنیا میں بہترین افراد میں سے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کے محنت کش اور منیجر اہلیت کی وجہ سے ڈیمانڈ میں ہیں۔ کاروباری طبقہ خوبیوں کا حامل ہے۔ ان وسائل کی وجہ سے ہی پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں متعدد زیر و زبر کے باوجود اوسطاً جی ڈی پی کی شرح تقریباً پانچ فیصد رہی ہے جو مناسب ہے۔
پاکستان زرعی ملک ہے۔ اسکا شمار دنیا کے بہترین زرعی ممالک میں ہوتا ہے، ہندو پاک کی تقسیم سے پہلے برصغیر ہند کی خوراک کی جملہ ضروریات موجودہ پاکستان سے پوری ہوتی تھیں۔ گزشتہ دنوں بدترین سیلاب کی وجہ سے ملک کے کچھ حصوں میں شدید تباہ کاریاں ہوئیں۔ اسکے باوجود گندم اور چاول کی فصل وافر تھی۔ ملکی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ یہ اجناس برآمد بھی کی گئیں، روئی اور کپڑے وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اس عمل سے اشیائے صرف کی مانگ زیادہ ہوئی۔ معیشت میں عمومی طور پر ریٹیل بزنس میں خصوصی طور پر تیزی آئی۔ سٹاک ایکسچینج پر رپورٹ ہونےوالی متعدد کمپنیوں کی کارکردگی نے ریکارڈ قائم کیا ہے۔
پاکستان تیل، گیس، کوئلے، تانبے، چاندی اور سونے جیسی معدنیات سے مالا مال ہے۔ ان ذخائر کو دریافت کرنے اور ان سے مستفیض ہونے کیلئے خاطر خواہ کوشش درکار ہے۔ یہ ذخائر اتنے ہیں کہ نہ صرف مقامی ضروریات پورا کر سکتے ہیں بلکہ وافر مقدار میں برآمد بھی کئے جا سکتے ہیں۔اس وقت ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 18.7 ارب ڈالر ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیل زر بھی بلند ہوئی جو اوسطاً1.5 ارب ڈالر ماہانہ ہے۔ کرنٹ اکاﺅنٹ مثبت ہے جو کبھی نہیں ہوا۔ توقع ہے کہ برآمدات تقریباً 25 ارب ڈالر اور درآمدات 34 ارب ڈالر ہوں گی، موخرالذکر لمحہ فکر ہے اگر درآمد کی جانے والی اشیاءمقامی طور پر تیار کی جائیں تو درآمدات سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے جس سے زر مبادلہ کی بچت ہوگی۔
ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں صورتحال بالکل مختلف رہی ہے۔ بانی رہنما نہرو کے زمانے سے انڈیا اس پالیسی پر کاربند ہے کہ جو اشیاءانڈیا میں پیدا ہوتی ہیں وہ درآمد نہیں کی جا سکتیں۔ حال ہی میں جب انڈیا کی معیشت دنیا بھر میں متقابل ہوئی ہے تو اسکے وزیراعظم من موہن نے کچھ چھوٹ دی ہے۔ انڈیا نام نہاد امداد اور قرضوں کے حق میں بھی نہیں۔ ملائیشیا کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے۔ اس نے اپنے ہی وسائل پر انحصار کیا اور بین الاقوامی ادارے یعنی آئی ایم ایف کی مدد قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح وہ عالمی طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہے۔ پاکستان کیلئے یہ دو ملک یعنی انڈیا اور ملائیشیا مشعل راہ ہیں۔
ہندو پاک کی تقسیم کے وقت پاکستان کے پاس خاطر خواہ وسائل نہیں تھے۔ قائداعظم نے اس سلسلے میں امریکہ سے مدد مانگی جو امریکہ نے قبول تو کرلی لیکن امداد کو علاقائی تعاون بلکہ علاقی تابعداری یعنی Camp Follower سے مشروط کردیا۔ سو پاکستان ”آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا“ پاکستان برطانیہ کے چنگل سے نکل کر امریکہ کے زیر دست ہو گیا۔امریکہ اپنی خواہشات کیمطابق پاکستان کو استعمال کرتا ہے۔ استعمال کرنے کے بعد پھر اسے بے یارومدد چھوڑ دیتا ہے۔
بین الاقوامی ادارے آئی ایم ایف کی امداد اور قرضے امریکہ کی شرائط پر ملتے ہیں۔ پاکستان کو یہ امداد اور قرضے بنیادی طور پر ڈونرز یعنی امداد دینے والے ممالک کے ہاں سے خریداری کیلئے ملتے ہیں نہ کہ ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے یعنی موخرالذکر بالخصوص پانی، بجلی، گیس وغیرہ۔ شرط ہوتی ہے کہ امداد وصول کرنیوالے ممالک مشینری، پرزے اور خام مال وغیرہ ممد ممالک سے ان کی من مانی شرائط پر درآمد کریں گے۔
ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ ان قرضوں اور امداد کا انتظام اور نگرانی امداد دینے والے ممالک کے ماہرین ہی کریں۔ یوں امداد کا ایک حصہ ان کے معاوضے کے طور پر واپس انہی کو چلا جاتا ہے۔ کم و بیش ہی حصہ امداد وصول کرنیوالے ممالک کے ہاتھ آتا ہے لیکن پورے قرضوں کی ادائیگی انہیں اپنے زرمبادلہ سے کرنا پڑتی ہے۔ مزید برآں آزادانہ درآمدات کی وجہ سے مقامی سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات کے مواقع ضائع ہوتے ہیں۔ یہ گلوبلائزیشن ہے۔ اسکے برعکس پاکستان نے بنیادی صنعتوں کی نیشنلائزیشن کی وجہ سے بھی کافی نقصان اٹھایاہے، لیکن نیشنلائزیشن ہو یا آزاد معیشت، نتیجہ وہی ہے جو بقول آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب ڈومنیق سٹراس کاہن کے ”بے روزگاری، سماجی بے راہ روی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا“۔ اس امر سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پاکستان میں دس فیصد غریب ترین طبقے کو قومی آمدنی میں سے صرف چار فیصد حصہ ملتا ہے جبکہ دس فیصد امیر ترین طبقے کو ستائیس فیصد!
دوسری طرف آزاد معیشت کے نام پر پاکستان سمگلنگ، انڈر انوائسینگ اور ٹیکس چوری کی جنت ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی 57 فیصد متوازی معیشت ہے جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ ملک کی مجموعی سالانہ آمدنی تقریباً 2.5 کھرب روپے ہے۔ اگر اس 57 فیصد معیشت پر ٹیکس ادا کیا جائے تو آمدنی تقریباً 4 کھرب روپے ہوسکتی ہے جو پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضوں اور امداد کی مجموعی رقم 38 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہے۔ 2007 سے آج تک قرضوں کی ادائیگی نہیں کی جاسکی جس کی وجہ سے قرضے کی کل رقم 4.7 کھرب روپے سے بڑھ کر 17 کھرب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اب تو امداد دینے والے ممالک نے بھی کہنا شروع کردیاہے کہ امداد لینے والے ممالک اولاً اپنے وسائل پر انحصار کریں۔ بالعموم یہ مشورہ مفید ہے کیونکہ قرضوں اور امداد کی وجہ سے ہی یہ ممالک اپنی سیاسی، سماجی اور اقتصادی خودمختاری کھورہے ہیں۔ پاکستان دنیا میں ایسی مثال ہے جس کے بارے میں کچھ نہ ہی کہنا بہتر ہوگا!
پاکستان کی اقتصادی، سماجی اور خارجہ پالیسی جو بالفاظ دیگر نام نہاد علاقائی تعاون اور در پردہ غلامی کے زمرے میںآتی ہے برعکس کرنا ہو گا۔ اگر تمام وسائل کو یکجا کر کے دانشمندی سے استعمال کیا جائے تو پاکستان امداد دینے والے ممالک پر انحصار ختم کر کے سماجی، سیاسی اور معاشی خودمختاری حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہو گا جس سے روزگار کے مواقع اور خود انحصاری کا رجحان پیدا ہو گا۔ اور اسی سے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر ملکی مارکیٹوں میں رسائی بھی ملے گی۔ یہ اپنی معیشت تک اپنی رسائی ہے نہ کہ امریکہ، برطانیہ یا دوسرے ممالک یا آئی ایم ایف وغیرہ کی۔ اقتصادی خودمختاری کےلئے ملک کو اسی امر کی ضرورت ہے۔
سو پاکستان کو بیرونی عوامی کی ترجیحات کے بجائے قومی مفاد کے مطابق پالیسی تشکیل دینا چاہیے۔ ورلڈ بنک کے سابق صدر بھی اسی نظریے کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے لوگوں کی امیدیں معدوم ہوئیں۔ ان کی مایوسی، ناامیدی مزید زوال پذیر ہو گی۔ مقامی ملکیت اور مقامی شراکت کی ہی ضرورت ہے۔ وہ دن گئے جب ترقیاتی منصوبے واشنگٹن یا مغربی دارالحکومتوں یا کہیں اور بند دروازوں میں بنا کرتے تھے۔
لہذا گلوبلائزیشن نہیں، گلوکلائزیشن عوام کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ جس میں مقامی معیشت تک از خود رسائی اور خود انحصاری مضمر ہے۔ معیشت کو استحکام ملے گا، روزگار فراہم ہو گا اور عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان۔ مزید برآں ڈونر یعنی امداد دینے والوں پر انحصار جاری رہا تو ملکی سالمیت اور ملک و قوم کی خودمختاری ناپید:
آج کی شب جب دیا جلائیں اونچی رکھیں لو