اسلام آباد (محمد نواز رضا‘ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے ملک کی ”اہم شخصیات“ کو ”سیکورٹی تھریٹ“ ہونے کی وجہ سے سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں۔ ان کی نقل و حرکت کو ہرممکن خفیہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کو ایسی اطلاعات ملی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ بچے کھچے دہشت گردوں کے گروپ مغربی سرحد کے راستے داخل ہو رہے ہیں۔ بڈھ بیر میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ یہ افغانستان سے آئے اور اس کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں کی گئی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم محمد نوازشریف اور آرمی چیف ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے افغانستان میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو پھر روکنے کیلئے افغان صدر اشرف غنی سے بات کی جائے گی۔ بصورت دیگر پاکستان افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو روکنے کیلئے ازخود کارروائی کر سکتا ہے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد ”بڈ بیر فضائیہ کیمپ“ پر حملے نے ایک بار پھر سیاسی و عسکری قیادت کو ایک ”صفحہ“ پر کھڑا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت سانحہ بڈ بیر کے بعد سیاسی و عسکری قیادت کو ایک میز پر بٹھانے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت آئندہ چند دنوں پاکستان میں افغان مہاجرین کی ان کے وطن واپسی اور روزانہ 50 سے 70 ہزار انسانوں کی آزادانہ آمدورفت کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ افغان کیمپوں سے باہر افغان شہریوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی نگرانی میں اسلام آباد اور گردونواح کو کلین اپ کیا جا رہا ہے۔ اہم حساس تنصیبات کے گردونواح میں دہشت گردوں کی تلاش کیلئے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جائے گا۔
اشرف غنی سے بات
افغانستان سے حملہ آوروں کی آمد‘ وزیراعظم ‘ آرمی چیف کا اشرف غنی سے بات کرنے کا فیصلہ
Sep 19, 2015