میری عادت ہے کہ لیکچر شروع کرنے سے پہلے سٹوڈنٹس میں سے کسی سے کوئی اچھی بات بورڈ پہ لکھوا کے پہلے پانچ دس منٹ اس پر بات کرتی ہوں اس طرح سٹوڈنٹس بھی تیار ہوجاتے ہیں اور توجہ سے بات سننا شروع کردیتے ہیں اور ایک اچھے اخلاقی موضوع پر بھی بات ہوجاتی ہے جس سے سیکھنے سکھانے کا سلسلہ چلتا رہتاہے۔ کیونکہ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ میں استاد ہوں تو میرا کام بس سکھانا ہے جبکہ میں سکھانے کے عمل میں بھی دراصل سیکھ ہی رہی ہوتی ہوں۔ یہاں میں اپنے اللہ کی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھ میں سیکھنے کا جذبہ بدرجہ اتم رکھا ہے یقین مانئے میں دکاندار سے رکشہ ڈرائیور سے اور پڑوس میں رہنے والی اماں رضیہ سے بھی سیکھتی ہوں یہاں تک کہ اپنی کام والی کی تیرہ سالہ ان پڑھ بیٹی بھی میری استاد ہے۔ میں نے اس سے چائے بنانا سیکھی۔ ایک دن اس کے سامنے چائے کا پانی رکھا اور اس میں پتی اور چینی ایک ساتھ ڈال دی۔ وہ دیکھ کر فوراً بولی۔ باجی یہ کیا کررہی ہو۔ چائے بناتے ہوئے چینی بالکل آخر میں ڈالا کریں پھر چائے کا رنگ بہت اچھا آتا ہے یقین مانےے اس کے بعد آج تک میری بنائی ہوئی چائے کا رنگ خراب نہیں ہوتا۔ ورنہ سب کا کہنا تھا کہ مجھے سب آتا ہے مگر چائے بنانی نہیں آتی اور دیکھا جائے تو واقعی نہیں آتی تھی۔ یہ تو مجھے زویہ( کام والی کی بیٹی) نے سکھائی مگر اس کااعتراف میں اب تک کسی کے سامنے نہ کرسکی ۔
آخر کیوں نہ کرسکی؟
اس کا جواب مجھے اس وقت ملا جب کلاس میں ایک طالبہ کی طرف سے لکھی گئی ایک اچھی بات پراظہار خیال کررہی تھی۔ وہ بات کچھ یوں تھی
”ان پھولوں کی طرح ہوجاو¿ جو اپنے توڑنے والے کو بھی خوشبو دیتے ہیں“ اخلاقیات پر بات ہوئی احترام آدمیت پر بات ہوئی بہت سی مثالیں دی گئیں کچھ میری طرف سے کچھ طالبات کی طرف سے نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں ہر حال میں لوگوں کابھلا کرنا چاہئے خواہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں یا ہمیں تکلیف دیں۔ تقریباً سب اس بات پر متفق نظر آئے۔ میں نے بورڈ مارکر اٹھایا اور لیکچرکاآغاز کرنے کاارادہ کیا ابھی بورڈ کے قریب ہی پہنچی تھی کہ ایک طالبہ کی آواز آئی ....Ma'mمیں نے مڑ کے دیکھا اور بولی۔۔۔۔۔جی بیٹا۔۔۔۔؟
کچھ جھجکتے ہوئے بولی۔ ۔ ۔میم ہم اگر تھوڑی ”انا“ نہ دکھائیں تو سامنے والا خود کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے اور اگر ہم جھکنے میں پہل کرلیں تو اکثر یہ سمجھاجاتا ہے کہ ہم غلطی پر ہیں۔۔۔۔۔۔
یقین مانےے میرے پاس دلیل نہ تھی کہ فوری طور پر اس بچی کے سچ کاسامنا کرتی۔ ایک لمحے کو میں خاموش ہوگئی۔۔۔۔۔
تو اسے کہتے ہیں انا جو ہمیں کسی کے آگے جھکنے نہیں دیتی کہ دوسرا ہمیں کمتر جان لے گا۔ نہ کسی کی تعریف اور نہ کسی سے کچھ سیکھنے کا اعتراف کرنے دیتی ہے۔ انا کے نام کا راگ ہر جانب الاپاجارہا ہے ۔ یہ کس بلا کا نام ہے۔ جس نے چاروں اطراف اپنی حکومت جما رکھی ہے۔ میں نے اسے اپنے آپ سے لے کر اپنے ارد گرد گلیوں، بازاروں اداروں ہر جگہ پایا۔ میری دادی کی کمر عمر کے بوجھ سے جھک گئی تھی مگر اپنی بات منوانے کیلئے ان کی انا اکڑی کھڑی رہتی میرے دادا پانچ وقت اللہ کی بارگاہ میں جھکتے مگر کسی انسان کے آگے جھکنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔
(جاری ہے)
یہ ”انا“ یعنی”EGO“ہر قدم ہمارے ساتھ چلتی ہے۔ ہر جگہ ہمیں سمجھاتی ہے سامنے والا کس کھیت کی مولی ہے۔ ہمارا شعورانا کے جال میں پھنسا رہتا ہے۔ مگر ہمارا لاشعور ہمیں”انا“ سے پرے کا رستہ دکھاتاہے۔ ”انا“نے ہمارے شعور کی آنکھ پر جو پردہ گرارکھا ہوتاہے لاشعور اسے اٹھانے میں اکثر ناکام رہتاہے کیونکہ اس کے لئے اسے ہماری اس ”طاقت “کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ہمارے خمیر میں گوندھی گئی جسے ”محبت“ کی طاقت کہتے ہیں اور جو عاجزی سے پنپتی ہے۔ ہم اگر اس ”طاقت “کو استعمال کرنے کی اہلیت رکھیں تو ہمارالاشعور ا”انا“کے پردے کو شعور کی آنکھ سے ہٹا سکتاہے اورپھر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیاوی لحاظ سے کوئی بڑ اانسان کسی بڑے عہدے والا کسی بڑی سی جائیداد کا مالک کسی بڑی فیکٹری کا”آنر“ اپنے ماتحت سے، اپنے مزارع سے اور اپنے مزدور سے اپنی غلطی کی معافی مانگتا ہے مگر ایسا شاذو نادر ہی ہوتاہے ہوتا یہ ہے کہ کسی کی بات کو ماننا کسی کے آگے جھکنا یہاں تک کہ کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنا یا سننا بھی ہماری ”Ego“ کو تنگ کرتاہے۔
اکثر اوقات ہماری Self Estimationہمیںمزید گمراہ کردیتی ہے اور ہماری”انا“ مزید مضبوط ہوجاتی ہے اس کا مینار کچھ مزید اونچا ہوجاتا۔ فرض کیا تکرار ہوئی بات چیت بند ہوگئی۔ اب دونوں طرفSelf Estimationقائم ہوجاتی ہے کہ اگر وہ پہل کرے گا تو ہی میں نے درست ثابت ہونا ہے۔ چنانچہ عرصہ گزرجاتا ہے اور کوئی پہل نہیں کرتا۔
ہم اپنے معاشرے میں بکھری کہانیوں پر غور کریں تو ہمیں لڑائی جھگڑوں، خاندانی دشمنیوں اغواءکے واقعات اور یقین مانےے طلاقوں کے پیچھے بھی یہ ”EGO“ ہی کارفرما ہے۔ رشتہ دار کسی رشتہ دار کے آگے دوست دوست کے آگے بہن بھائی کے آگے اور بھائی بہن کے آگے میاں بیوی کے آگے اور بیوی میاں کے آگے جھکنے کا تصور ہی نہیںرکھتے۔ یہاں تک کہ اولاد والدین کیلئے بھی ”انا“کی دیواروںکو اونچی کررہی ہے۔ کسی زمانے میں والدین استادوں کو یہ کہہ کر بچوں کو حوالے کردیا کرتے تھے کہ ہڈیاں ہماری اور ماس تمہارا اب کچھ یوں ہے کہ چھٹی ساتویں کے بچے کو بھی ڈانٹاجائے تو وہ کہتا ہے ٹیچر نے میریSelf Respectکو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ Self Respectکہیں”EGO“ کی خوبصورت شکل تو نہیں؟ یہ وہ Self Respectتو نہیں محسوس ہوتی جو سرسید کے مطابق انسان کی بہت بڑی خوبی ہے جو اسے ”اپنی مدد آپ“کے عظیم جذبے سے روشناس کرتی ہے۔ بلکہ یہ Self Respectتو وہ ہے جو کسی سے بھی ”اُف“ تک نہ سن سکتی ہے خواہ وہ والدین یا استاد ہی کیوں نہ ہوں۔ اکثر کولیگز میں”Ego“کا تذکرہ کچھ زیادہ سنائی دیتا ہے۔ وہ سلام نہیں کرتا مجھے۔ یا وہ سلام کا جواب نہیں دیتا۔
اب میں بھی بات نہیں کروں گا اس سرد جنگ میں اکثر اداروں کے نقصان ہوجاتے ہیں۔ مگر”انا“ کے مینار اونچے اور مزید اونچے ہوتے جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی پارٹیاں بھی اپنا منشور”Ego“کی بنیاد پر مرتب کرتی ہیں۔ آپ نے دیکھا اور سنا ہی ہوگا۔ ایک سیاسی پارٹی کامنشور کتنا ہی اچھا کیوںنہ ہو دوسری نے اس کی تردید ہی کرنی ہوتی ہے کیونکہ”انا“کا نقصان سیاسی زندگی کا خاتمہ مانا جاتا ہے۔ ایک پارٹی کتنے ہی فلاحی کام کرے۔ سیاسی انا میں کوئی مخالف تعریف نہیں کرتا بلکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر مین سیخ نکالتا ہے۔ ایک جماعت ہے دور حکومت میں جتنے ترقیاتی منصوبے شروع کرتی ہے”انا“ کی تسکین کیلئے تمام تر قومی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے دوسری سیاسی جماعت اپنے عہد حکومت میں انہیں ادھورے ہی چھوڑ کر تمام خرچ شدہ رقم کا ضیاع کردیتی ہے اور نتائج کے فوائد سے قوم الگ محروم رہتی ہے۔ ہمارے رشتہ داروں میں دو بھائی، سگے بھائی اولاد اور بیویوں کے اختلافات کی وجہ سے جھگڑ پڑے یہ اولاد بھی عجیب چیز ہے انسان کو پچھلے رشتوں کو بھلادیتی ہے۔ شاید اسی لئے اسے بھی دولت کی طرح بہت بڑی آزمائش کیا گیا ہے۔ انسان کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے جو اس کی فطرت میں نہیں۔ اولاد کی خوشی کیلئے اکثر اوقات انسان جائز اور ناجائز کی پہچان بھی کھو بیٹھتا ہے۔ اولاد کی خاطر اپنے خونی رشتوں یہاں تک کے ماں باپ بہن بھائی سب سے جھگڑ پڑتاہے۔ ان دو بھائیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ دونوں اپنی اپنی بیویوں اور اولاد کے ہاتھوں مجبور۔۔۔۔کئی مواقع میسر ہوئے کہ جب خاندان والوں نے ملوانے کی کوشش کی مگر اولاد اور بیویاں اپنے اپنے فیصلوں پر قائم اور اپنی اپنی ”انا“ کی دیوار تلے دبے رہے مگر وقت کسی کاانتظار کب کرتا ہے۔ ایک بھائی اسی صورتحال میں دنیا سے رخصت ہوا۔ وقت گزر گیا اب صرف جسد خاکی ملے تھا۔ بھائی اپنے بھائی سے بات نہ کرسکتا تھا۔ صرف پچھتاوا باقی رہ گیا وقت گزر گیا۔ یہ صورتحال ہمارے ہر محلے ہر گلی میں پائی ہی جاتی ہے کوئی اچھی مثال نہیں مگریہ تلخ حقیقت ہے جو جگہ جگہ بکھری ہوئی ہے۔ اس ”انا“کے شاخسانے بہت سے لوگ کررہے ہیں۔ مگر کوئی اس برج کو گرانے میں پہل کمی نہیں کرتااور پھر یوں ہی ہوتا ہے کہ
”نہ پگھلے برف تو دریا بھی پتھر ہوہی جاتے ہیں“
انا کے برج اونچے ہوں تو رشتے کھو ہی جاتے ہیں
معاشے میں پھیلا”انا“ کا یہ زہر ہماری معاشرتی اور خاندانی زندگیوں کو تباہ کررہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہماری مذہبی زندگی کو ہی دیکھ لیجئے۔ ہمارا اصل مقصد اور اصل راستہ کہیں گم ہوچکا ہے اور ہم سب مذہبی رہنماو¿ں کی انا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ذاتی انا کی جنگ میں دین کا وہ استعمال کیا گیا ہے کہ آج ہر طرف دھند ہی دھند دکھائی دیتی ہے اور درست راستے کاانتخاب ناممکن سا ہوچکا ہے سوائے اس کے کہ ہم صرف اپنی شعوری کوشش اور دلی رہنمائی سے کسی راستے کاانتخاب کرلیں کوئی چارہ نہیں علماءکے پاس جائیں تو سوائے دوسرے مسلک پر تنقید کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ متفق ہوں یا نہ ہوں ہم نے تو اس فلسفے پر عمل شروع کردیا ہے کہ
”تم اپنی مسجد کو جاو¿ ہم اپنی مسجد کو جائیں“ یوں کم از کم جھگڑے سے تو بچتے ہیںتو حقیقت یہ ہے کہ ۔۔۔۔
انا کا راگ اب ہر جانب الاپاجارہا ہے اور یہ راگ ہمیں نہ دوسروں سے کچھ سیکھنے کااعتراف کرنے دیتا ہے نہ کسی کی خوبیوں اور صلاحیتوں کی تعریف کرنے دیتا ہے۔ بحث اور جھگڑے کی صورت میں یہی”انا“ بات چیت میں پہل کرنے سے روکتی ہے کہ ”نہیں“اس طرح تو تم قصور وار ٹھہراو¿ گے اوریوں شکایتیں ، غلط فہمی، جھگڑے کبھی ختم نہیں ہوپائے کیونہ وضاحتوں کا وقت نہیں اور جھکنا ہماری انا کے خلاف۔
ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اختصار پسند ہوگئے ہیں۔ کوئی بہت سا وقت دے کر بہت سی جسمانی مشقت کے بعد ہمیںکوئی مزیدار ڈش بنا کر کھلائے یا ہمارا کوئی بھی ایسا کام کرتے جو وقت طلب بھی تھا اور جاں طلب بھی تو ہمارے پاس صرف ایک لفظ ہے ”Thank You“کسی کو ہم سے غلط فہمی پیدا ہوجائے کوئی شکایت ہوجائے تو اس کی شکایت دور کرنے کا وقت ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اہم شخص ہو تو صرف”Sorry“اور کوئی ماتحت یا کوئی بھی غیر اہم شخص تو اس کو جتنی مرضی غلط فہمی ہوجائے ہم پرواہ نہیں کرتے اور عموماً ایک جملہ ایک خیال اپنے ذہن میں بسا لیتے ہیں کہ
”لوگ تو ربسے بھی راضی نہیں ہوتے ہم کیا چیز ہیں۔ یقین مانےے یہ جملہ میں نے اکثر لوگوں سے سنا۔ میں نے غور کیا کہ بات تو ٹھیک ہے مگر کتنی ٹھیک ہے؟ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی سوال کا جواب تلاش کروں تو کہیں نہ کہیں سے اس کا جواب مجھے مل جاتا ہے۔ یا میری شعوری کوشش جو دلی خواہش کے ساتھ جڑ جاتی ہے اور پھر جواب تلاش کرہی لیتی ہے۔ مجھے اس سوال کا جاب بھی اندر ہی کہیں سے ملا کہ بھلا ہم انسان یہ بات کیسے کرسکتے ہیں جبکہ ہمیں تو ایک دوسرے کی پرواہ کیلئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ رب ہمیں خوشی دے یا غم، تکلیف دے یا راحت وہ بااختیار ہے۔ اس کی مرضٰ وہ بے نیاز ہے۔ مگر پھر بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ ہر حال میں ہماری پرواہ کرتا ہے۔ کسی بھی صورت ہمیں اکیلا تو نہیں چھوڑتا۔
ہم انسان یہ اختیار نہیں رکھتے کہ کوئی ہم سے خوش ہو یا نہ ہو ہم اس کی پرواہ نہ کریں۔ ہمارا تو فرض ہر ممکن طور پر دوسروں کو خوش رکھنا ہے یا کم از کم کوشش کرنا ہے۔ غلط فہمی کی صورت میں وضاحت کرکے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر بھی کوئی خوش نہ ہو تو چلیں سوچ لیں کہ ہم کرچکے اپنی سی کوشش اب اللہ پر چھوڑیں۔ ویسے ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کو منایاجائے اور وہ نہ مانے۔ ہماری دادی اماں کہا کرتی تھیں۔
”روٹھنے والے سے منانے والا طاقتور ہوتاہے“
تو ہم اللہ سے بھی اگر شکایت کرتے ہیں تو دراصل اس سے اپنائیت کا اظہار ہی کررہے ہوتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ جس شخص کو ہم سے شکایت یا غلط فہمی ہے وہ دراصل ہم سے کچھ توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں اور جب ان کے خلاف ہوتا ہے تو یقینا دکھ ہوتا ہے اور شکایت پیدا ہوتی ہے۔ بطور انسان ہم سب کو ایک دوسرے سے توقعات ہوتی ہیں۔ تو جہاں شکایت ہو پھر ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنی ”انا“ کو”Side line“ کردیں اور سامنے بٹھا کر کچھ باتوں کی وضاحت کردیں تاکہ شکایت اور غلط فہمی کا خاتمہ ہوجائے۔ میرا ماننا ہے کہ بڑی بڑی دشمنیاںTable Discussionسے دور ہوسکتی ہیں۔ یہ شکایتیں اور غلط فہمیاں تو معمولی باتیں ہیں۔ مگر یہ Table Talkکرے کون ہمارے پاس وقت ہی نہیں تو صرف دو ہی راستے ہیں یا پرواہ نہ کرو یاSorry کہہ کر جان چھڑاو¿۔ ۔۔۔۔۔۔
غالباً پرانے وقتوں میںانا کے برج اونچے نہ ہونے کی وجہ سے ”مل بیٹھ کر بات کرنے کا وقت“ تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے شکایت کااظہار کرتے اور دوسرا گھنٹہ آدھ گھنٹہ اپنی انسانی غلطی کا شاخسانہ کرتا، وضاحتیں کرتا اور شکایت دور کرکے ہی اٹھتا۔ یوں بات آگے نہ بڑھ پاتی۔ اب لوگ ذاتیات کے حصار میں محصور رہتے ہیں۔ مادی ضروریات زندگی روحانی تقاضوں پر حاوی ہیں۔ اب لوگ یا تو کسی کی پرواہ نہیںکرتے کہ کوئی ان کے بارے میں کیا کہتا ہے کیا سوچتا ہے اور اگر شاذو نادر پرواہ ہوتی بھی ہے تو وقت ہی نہیں کہ مل بیٹھ کر شکایتوں کو دور کرلیاجائے البتہ کہیں کوئی مطلب ہے کسی سے کوئی کام ہے تو ہمارا وقت اسی کے نام ہوتا ہے۔
باتیں بہت سی ہیں مگر شاید بے سود۔۔۔۔۔
کیونکہ جو بھی لکھ لیں پڑھ لیں۔ ہم نے سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ خود کو بدلنا چھوڑ دیا ہے اور ہم صرف اپنی اپنی دنیا میں مست اپنی اپنی ضروریات کے محور کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اب ہمارے پاس ”پڑھنے“ کا بھی وقت نہیں اور جب ہم نے پڑھنا نہیں غور نہیںکرنا تو بدلنا کیسا۔۔۔۔لیکن پھر بھی یہ ہی کہوں گی اس امید کو عملی صورت میں پیش کرنا ہمارے لئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ در حقیقت ہماری ”بقا“ ”انا“ کی فنا میں ہی ہے۔ کہتے ہیں انسان مرتا اس وقت ہے جس کسی کے دل میں زندہ نہ رہے۔ ہماری”انا“ ہمیں جیتے جی ماردینے کا کام کرتی ہے۔ آئےے دلوں میں زندہ رہنے اور ہمیشہ زندہ رہنے کا بندوبست کریں۔ آئےے اپنی انا کو فنا کرکے مقام بقاحاصل کریں۔
اس ”میں“ سے جو بچ جائے وہ پالے گا راز زندگی
کہ”میں “ختم ہوتی ہے تب ملتی ہے انسان کو بقا
موج حیات ِ جاوداں قسمت اسکی لکھ گئی
جو”تو“میں کھو کے کرگیا اپنی انا کو ہی فنا
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔