ٹیلی وژن سکرینوں پر حق وصداقت کے علمبردار بنے اینکر خواتین وحضرات کو ان دنوں بہت طعنے مل رہے ہیں۔ مجھ ایسے لوگ، جن کو ہر موقع کی غزل منہ زبانی یاد ہوا کرتی ہے، سمارٹ فونز پر ٹویٹر استعمال کرنے والوں کے اٹھائے چند سوالات کا جواب ہی نہیں دے پارہے۔
”نااہل اور بدعنوان سیاستدانوں“ کی زندگی کا شاید ہی کوئی لمحہ ہو گا جو ہماری مستعد آنکھ سے چھپ سکے۔ ہم ”نواز شریف کے سمدھی“-جو ان دنوں پاکستان کے بہت ہی طاقت ور وزیر خزانہ بھی ہوتے ہیں- کی ”عنائتوں“ سے شاید ”ایک لاکھ ڈالر فی گھنٹہ“ امیر بنتے سرمایہ داروں کی مذمت میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔”قوم سے لوٹی دولت“ سے دوبئی،نیویارک اور لندن وغیرہ میں بنائی جائیدادوں کا پتہ بھی ہم نے چلارکھا ہے۔ ماتم اب کچھ دنوں سے محض یہ سوال اٹھاتے ہوئے کررہے ہیں کہ پاکستان کی ایف آئی اے،انکم ٹیکس جمع کرنے والوں اور احتساب بیورو کو وہ سب کیوں نظر نہیں آرہا جو ہم کئی برسوں اور مہینوں سے مسلسل دریافت کرکے عوام کو بتاتے اور دکھاتے چلے آرہے ہیں۔شکایات الیکشن کمیشن سے بھی ہیں کہ ”ناجائز“ ذرائع سے دولت اکٹھا کرنے کے عادی،جن کی نشاندہی ہم کرچکے ہیں، ابھی تک قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔یہی شکوہ ذرا ڈرتے اور کچھ صورتوں میں ببانگ دہل اعلیٰ عدالتوں سے بھی ہورہا ہے جو افتخار چودھری کے ہوتے ہوئے سوموٹو اختیارات کی بدولت مدعی بھی ہوا کرتی تھیں اور منصف بھی۔
قومی اداروں اور ”لالچی واَن پڑھ عوام“ کے منتخب کردہ نمائندوں کی نااہل اور گناہوں کو بے نقاب کرنے کے بعد مایوسی کے عالم میں ہم نے قوم کو بالآخر ایک بار پھر اس ادارے کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا جو 1958ءسے 1999ءتک کئی بار سرحدوں کی کڑی نگرانی کے ساتھ ہی ساتھ اندرون ملک جمع ہوئے گند کو بھی صاف کرنے پر مجبور ہوا۔ 1947ءسے چار بار اس ادارے نے تقریباََ 32سال تک بڑی لگن کے ساتھ بدعنوان سیاستدانوں کا احتساب کیا۔ ان پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگائی۔ ایک سیاستدان کو پھانسی بھی لگادیا گیا۔ ”گندے عناصر“ کو جیلوں میں ڈال کر یا عملی زندگی سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کے بعد بہت خلوص سے جمہوریت کو اس کی بنیادوں سے صاف اور محفوظ بنانے کی بارہا کوششیں ہوئیں۔ بات مگر بنی نہیں۔ ”چھترول“ کی لت میں مبتلا قوم کوایک بار پھر ڈنڈا بردار”دیدہ ور“ کی یاد ستانے لگی ہے اور میرے جیسے ”لفظ کار“ اور ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے گفتار کے غازی اس ”دیدہ ور“ کے انتظار کو شاعری کی صورت دینا شروع ہوگئے ہیں۔
چند روز قبل لاہور کو پشاور سے ملانے والی موٹر وے پر لیکن ایک ”واقعہ“ ہوا۔ اس ”واقعہ“ کی تفصیلات سوشل میڈیا پر سیلاب کی طرح پھیل گئیں۔ ہم نے ان تفصیلات کو دیکھنا بھی لیکن مناسب نہ سمجھا۔ کم از کم میں نے اس ضمن میں اپنی بزدلی کا اعتراف کرنے میں ہرگز دیر نہیں لگائی۔حالانکہ پوری دیانت داری سے میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ موٹروے جیسے واقعات کو بنیاد بناکر ”ہم یا تم“ یا انگریزی والا Either/Or،میرے وطن کو عراق،لیبیا یا شام جیسے وحشیانہ انتشارہیجان کی طرف لے جاسکتا ہے۔ہماری ریاست کے استحکام اور معاشرے میں ابھرتے ہیجان کو بے قابو ہونے سے بچانے کے لئے ایک سخت گیر اور منظم ادارے کی ہر وقت ضرورت رہے گی۔اس سے مفر ممکن نہیں۔ اس کی بے جامذمت خودکش دیوانگی ہے۔ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے چند واقعات ہوجائیں تو ان سے اس ادارے ہی میں کئی دہائیوں سے موجود احتسابی نظام کی بدولت بہترانداز میں نمٹا جاسکتا ہے۔
اس ادارے کی ساکھ کو نیک نیتی سے برقرار رکھنے اور بہتر بنانے کے لئے سوالات اٹھانا مگر ضروری ہوتا ہے۔ ان سوالات کو ”غداری“ کے الزامات لگاکر روکنا اب ممکن نہیں رہا۔ اپنی نوکری اور بعض صورتوں میں عزت وجان بچانے کی خاطر روایتی میڈیا سے وابستہ جانے پہچانے لوگ اگر یہ سوالات اٹھانا چھوڑ دیں تو سوشل میڈیا پر طوفا ن برپا ہوجاتا ہے۔سوشل میڈیا کو خاموش کروانا امریکہ جیسے ملک کے لئے بھی ممکن نہیں رہا۔Wiki Leaksمسلسل نت نئے حقائق سامنے لارہی ہیں۔ ایک شخص ایڈورڈسنوڈاﺅن بھی ہے۔Appleوالے اپنا فون Activeرکھنے کے لئے صارفین کو لائسنس یافتہ WIFIsپر انحصار سے آزاد کروانے میں جت چکے ہیں۔ Whatsappپر ہوئی گفتگو کو Interceptکرنا ناممکن نہ سہی بہت مشکل ضرور ہوچکا ہے۔
ہم سب کا فائدہ سمارٹ فونز کی قوت کو تسلیم کرلینے میں ہے۔ صحافیوںاور اینکرروں کو دھونس اور لالچ کے ذریعے گونگا اور بہرا بنادینا ہرگز کام نہیں آئے گا۔ بہتر یہی ہے کہ انہیں اپنا کام کرنے دیں۔ ان کی ساکھ محفوظ رہے گی تو آپ کی ساکھ کا دفاع بھی بہترانداز میںکیا جاسکے گا۔ روایتی میڈیا Ratingsکے لالچ میں اپنے اصل فرائض کو بھلابیٹھا ہے تو گلی گلی سے نام نہاد Citizen Journalistsکھمبیوںکی طرح ابھرنا شروع ہوگئے ہیں۔ کسی ایک واقعہ کی وڈیو بناکراسے مناسب تناظر میں رکھ کر دکھانے کے بجائے، Citizen Journalistsجونظر آئے فوراََ سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیتا ہے۔ایسے واقعے کے Visuals،دیکھنے والوں کو چونکا دیتے ہیں۔ وہ ان Visualsکو دھڑادھڑ Shareکرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ متعلقہ واقعہ سے جڑی کئی تفصیلات اور تہہ در تہہ پہلوﺅں کو نتھار کر سچ اور صرف سچ کو معقول انداز میں دکھانے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ ٹی وی سکرینوں پر حق وصداقت کے علمبردار نظرآنے والوں کی ”ہوسِ شہرت“ اور ”لالچی طبع“ بلکہ مستثنیات کے ذکر اور شناخت کے بغیر ”بے نقاب“ ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔وہ ”ان“ کی خدمت کے قابل بھی نہیں رہتے۔ ساکھ کھودینے کے بعد Uselessبن جاتے ہیں۔ کوڑے دان میں پھینکنے کے قابل۔
خدا کے لئے صحافیوں کو مجبور کیجئے کہ وہ محض آپ کو ”خوش“ نہ کریں۔خبروں کے حصول کے لئے فقط آپ کے فراہم کردہ ”ذرائع“ پر انحصار نہ کریں۔ گھروں سے باہر نکل کر خود خبریں تلاش کریں اور جو محسوس کریں اسے مناسب انداز میں دکھانے اور بتانے سے اجتاب نہ برتیں۔ صحافت نے اپنی ساکھ کھودی تو افواہوں اورطبع زاد کہانیوں کے طوفان اٹھاکریں گے۔ ہماری کسی بھی نوعیت کی اشرافیہ ان طوفانوں کا سامنا کرنے کے ہرگز قابل نہیں۔
میڈیا کی محض Ratingsکی خاطر بنائی ترجیحات کو برقرار رکھنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔سانحہ کوئٹہ کے بعد چند سوالات اٹھائے گئے تو یہ سوال اٹھانے والوںکو لال حویلی سے اٹھے نگہبان نے ”غدار“قرار دے دیا۔ چکری کے راجپوت وزیر داخلہ نے اس کے خیالات کو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی موجودگی میں ایک جذباتی تقریر کرتے ہوئے اثباتی مواد فراہم کردیا۔ اسی لئے سانحہ کوئٹہ کے بعد شکارپور کی ایک امام بارگاہ میں خودکش بمباروں نے داخل ہوکر تباہی مچانا چاہی تو میڈیا نے اس واقعے کو Under Playکیا۔ پریشان کن حقیقت جبکہ یہ تھی کہ شکارپور میں ہوا یہ حملہ واضح طور پر متنبہ کررہا تھا کہ بھٹائی کی انسان دوستی پر نازاں، صوفیوں کی سکھائی رواداری کی ایک زمانے تک زندہ علامت- سندھ اور خاص طورپر اس کو پنجاب اور بلوچستان سے ملانے والی شمالی پٹی اب مذہبی انتہا پسندوں کے پھیلائے جنون کا نشانہ بن چکی ہے۔ یہ سب کیوں ہوا؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لئے سوالات اٹھانا ضروری ہیں۔ صحافیوں نے ”نااہل اور بدعنوان سیاستدانوں“ کی دوبئی، لندن اور نیویارک وغیرہ میں موجود جائیدادوں کا سراغ لگانے کی دھن میں یہ سوالات اٹھانا چھوڑ دئیے ہیں۔
ہم کو ٹویٹرز ہی کی بوچھاڑ کے ذریعے قائل کر دیا گیا تھا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ ٹویٹرپر ہی لیکن اب سوال یہ اٹھائے جا رہے ہیں کہ مہمند کے ایک گاﺅں میں مسجد پر حملہ کیونکر ممکن ہوا۔ میڈیا نے اس حملے کی وجہ سے 34 جانوں کے ضیاع پر توجہ دینے کے بجائے اپنا فوکس خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری سے متعلق واقعات کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ تک کیوں مرکوز رکھا۔ راﺅانوار جو کررہا تھا وہ نظر آیا مگر انبارکے پائی نامی گاﺅں میں ہوئی دہشت گردی سے متعلق تمام تر پہلو دکھانا بھی تو ضروری تھا۔ ہم کب تک حرص و خوف میں مبتلا ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے؟