لاہور میں ٹریفک کے حالات درست کرنیکا وبال جاں نسخہ

شاہراہ قائداعظمؒ کے تمام تاجران کی انجمنو ں کے عہدیداروں نے گزشتہ روز صوبائی حکومت سے پُر زور اپیل کی ہے کہ آئے روز مال پر جلسے ،جلوس اور دھرنے بند کرائے جائیں ، جس کے باعث مال روڈ پر کاروبار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے ۔ اس قسم کی اپیلیں کافی عرصہ سے کی جارہی تھیں مگر اب لگتا ہے کہ تاجروں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ہے اور انہوں نے اپیل کے ساتھ ہی غیر معینہ ہڑ تال کی بھی دھمکی دیدی ہے ۔تاجروں کے ایک سینئر ترین بزرگ رہنما نے مجھے ایک ملا قا ت میں مال روڈ کے مسئلہ کا حل بتایا تھا ،جو اس وقت تو میں ناقابل عمل سمجھتا تھا مگر اب میں ان کی با توں سے سو فیصد متفق ہوں۔ اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی تھے ۔اس دوران بھی مال روڈ با ربار جلسے جلوسوں کا شکار رہتی تھی ‘حتیٰ کہ دفعہ 144 بھی نافذ تھی مگر مظاہرین اچانک ناصر با غ کی جانب گاڑیا ں ‘ بسیں ‘ سڑک ٹرالے کھڑے کر کے مال روڈ سے اسمبلی ہال چوک تک ریلی لے جانے میں کامیاب ہو جاتے تھے ‘ پولیس اور ضلعی انتظامیہ ان کے آگے مکمل طور پر بے بس نظر آتی تھی ریلیاں اسمبلی ہال چوک تک جانے میں با آسانی کامیاب ہوجاتے تھے ‘ کئی کئی گھنٹے لیڈروں کی تقاریر پر چلتی تھیں اوراس کے بعد وہ منتشر ہوجاتے تھے۔ مگر موجودہ دور میں اس میں مزید ترقی ہو چکی ہے اور جلسے جلوسوں والے اپنے ساتھ شامیانے ‘ دریاں ‘ قالین اور موسم کے مطابق پیڈسٹل فین یا سردیوں میں ہیٹروں کا بندوبست کر کے ساتھ لاتے ہیں ۔اسمبلی ہال چوک پر اگر دھرنا ہوجائے تو میڈیا کی پندرہ بیس گاڑیا ں بھی ساتھ ہی مو رچہ زن ہو جاتی ہیں اردگرد کی تمام سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجاتی ہے جس سے صرف مال روڈ کے دکاندار ہی نہیں بلکہ کوئنز روڈ ‘ ٹمپل روڈ ‘ ایجرٹن روڈ ‘ جہاں جہاں متبا دل ٹریفک کا رخ کیا جاتا ہے‘ وہ بھی بُری طرح متا ثر ہوجاتی ہے ‘ جہاں گاڑیا ں ‘ رکشے ‘ موٹر سائیکلیں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہیں ۔ مال روڈ کے بررگ تاجر نے جو تجویز دی تھی اگر آج بھی اس پر ٹھنڈے دل سے غورکرلیا جائے اوراس پر عمل کرلیا جائے تو شہر کے حالات درست ہوسکتے ہیں اور کاروباری سر گرمیاں بھی بحا ل ہوسکتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ اسمبلی ہال یہاں پر قیا م پاکستان سے کافی پہلے تعمیر کیا گیا تھا جب لاہور کی آبادی صرف دو لاکھ تھی۔یہ عمارت اندرون لاہور شہر سے با ہر کھلی جگہ پر واقع تھی ۔اس کے سا تھ ہی دوسری بلڈنگ گورنر ہاﺅس کی بھی جبکہ تیسری بلڈنگ سٹاف کالج اور چوتھی عمارت ایچی سن کالج کی بنائی گئی تھی جس کے ساتھ ہی مال روڈ ختم ہو جاتا تھا ۔یہ چاروں عمارتیں انگریزوں کے دور کی تعمیر شدہ ہیں جو 1900 ءکے لگ بھگ بنائی گئی تھیں ۔مجھ سے ان بزرگوں نے سوال کیا کہ اب لاہور کی آبا دی کتنی ہے‘ میں نے کہا کہ انداز اً ایک کروڑ کے قریب آبادی سمجھی جاتی ہے‘ حالا نکہ یہ پرانے اعداد و شمار ہیں‘ نئی مردم شماری میں یہ تعداد کہیں بڑھ چکی ہو گی۔ ان بزرگوں نے کہا کہ دو لاکھ اور ایک کروڑ کا فرق ہمارے حکمرانوں کو معلوم نہیں ہے ۔دہشت گردی سے ڈرے اور سہمے ہوئے حکمرانوں نے اس شاندار بلڈنگ کی شکل کیا بنا رکھی ہے ۔ایجر ٹن روڈ پر دیواریں ہی تعمیر کر کے سڑک بند کر رکھی ہے اور کچھ عرصہ تک کوپر روڈ جانیوالی سڑک بھی بند ہوجائے گی اس سے جو ٹریفک کا طوفا ن بر پاہو گا وہ کسی سے نہیں سنبھالا جا سکتا ۔اسمبلی ہال میں چونکہ حکمرانوں کے دفا تر اور ارکان اسمبلی کے بیٹھنے کی جگہ ہے ‘ اس لئے تمام احتجاجی جلوسوں نے یہیں آ نا ہے دوسرا احتجاجی گڑھ شملہ پہاڑی چو ک بن چکا ہے جہاں پریس کلب واقع ہے ۔تمام چھوٹے بڑے مظاہرین مطالبات لیکر وہاں جاتے ہیں ‘ چونکہ تمام میڈیا والے وہاں موجود ہوتے ہیں ۔ بزرگ تاجر رہنما کا لہجہ اب قدرے نرم پڑ چکا تھا انہوں نے کہا کہ لا ہو ر کو صاف کر نے کا واحد حل یہ ہے کہ اسمبلی ہال کو یہاں سے اٹھا لیا جائے اور اسے رائیونڈ روڈ پر کہیں کھلی جگہ میں اس کی تعمیر فوری طور پر شروع کردی جائے ۔اوراس کے ساتھ ہی وزیراعلیٰ ہاﺅس اور گورنر ہاﺅس بھی نئے تعمیر کیے جائیں جو موجودہ ایکڑوں میں پھیلے ہوئے عظیم الشان پیلس نہ ہوں بلکہ ایک مقروض ملک کے گورنروں کی سادہ سی رہائش گا ہ ہو ‘ جہا ں وزیر علیٰ صوبا ئی وزاءکے لئے ایک نئی جی او آ ر بھی تعمیر کی جا ئے ۔جہاں دس دس مرلے کے مکا نات ان کیلئے تعمیر کئے جائیں۔انہوں نے بتایا کہ ہمارے حکمران اکثر بیرون ملک جاتے آتے ہیں اور انہیں علم ہے کہ ان ممالک کے حکمران اور سرکاری ملا زمین کس قسم کی زندگی گزارتے ہیں ۔ پڑوسی ملک بھا رت ‘ چین کے حکمران اور سرکاری ملا زمین کس طرح کی رہائشگاہوں میں رہتے ہیں اور پھر اپنے رہن سہن کا جائزہ لیں تو انہیں خود اندازہ ہو جائیگا۔ بزرگوں نے یہ بھی بتایا ایران کے سابق صدر احمدی نژاد تہران کے میئر تھے اور صرف دوکمروں کے ایک سا دہ فلیٹ میں رہتے تھے اور جب صدر منتخب ہوئے تو پھر بھی انہوں نے اپنی رہائش گاہ وہیں رکھی ‘ وہ دو مرتبہ صدر بنے اور آٹھ سال تک انہی فلیٹوں میں رہے۔ اس طرح انہوں نے بتایا کہ جلسے ‘ جلو سوں کا رواج دنیا بھر میں ہے لیکن اس کے لئے الگ جگہ مقر ر کر رکھی ہوتی ہے جس طرح لندن میں ہائیڈ پارک ہے ہرشخض اپنا غم و غصہ وہاں نکا ل آتا ہے اور شہر میں معمو لات زندگی با لکل متا ثر نہیں ہوتے ۔نہ جانے ہمارے حکمران وہاں کی صرف میٹرو سے ہی کیوں متا ثر ہو کر آتے ہیں ‘ حالا نکہ ان کے دیگر اچھے کاموں سے بھی استفادہ کر نا چاہیے ۔ بزرگ تا جر رہنما کی با تیں سن کر پہلے تو میں انہیں نا قابل فہم سمجھتا رہا مگر جب میں وہا ں سے نکلا اور غور کیا تو مجھے لاہور کے مسئلہ کا حل صا ف نظر آنے لگا ہے ۔اگر ان کی با توں پر عمل کر لیا جائے تو لاہور شہرابھی کئی سا ل رہنے کے قابل ہوسکتا ہے ۔ اسمبلی ہال کے پیچھے جو گراﺅنڈ تھی اس میں ہال کی توسیع کا عمل گزشتہ گیا رہ سا ل سے جاری ہے ‘ جب اسکی تعمیر شروع ہوئی تھی ‘ اس وقت اس کا بجٹ کروڑوں میں تھا جو اب اربوں تک جاچکا ہوگا شاید اسکی تکمیل اسی نئے مکمل نہیں ہورہی ۔اگر اسمبلی ہال کو یہاں سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے تو یہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ لاہور میں ٹریفک کا مسئلہ تو ضرور حل ہو جائیگا اسمبلی کی موجودہ عمارت اسلا میہ کا لج کو پر روڈ کو یونیورسٹی کا درجہ دیکر اس کے سپرد کر دی جائے تو لاہو ر کتنا خوبصورت اور صاف ستھرا نظرآئیگا ۔جہاں مال روڈ کے تاجر وں کا مسئلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیگا۔

ای پیپر دی نیشن