اوکاڑہ میں پولیس گردی اور صحافتی جہاد

محترم شہباز شریف جانتے ہیں کہ اوکاڑہ پنجاب میں ہے۔ اوکاڑہ میں نوائے وقت کے ایک نامہ نگار حسنین رضا کو ڈی پی او اوکاڑہ اور پولیس نے بہت ظالمانہ کارروائی کے بعد حوالات میں ڈال رکھا ہے۔ اس کی بوڑھی والدہ کی اپیل پر ظالموں نے عید پر بھی اسے رہا نہیں کیا۔ اس پر کئی جھوٹے مقدمے بنائے گئے ہیں۔ یہ پولیس کی ’’خاص‘‘ کارروائی ہے۔ نوائے وقت کے ایک صحافی کے طور پر دل اپنے ساتھی کی عزت اور تکلیف کے لئے تڑپنے لگا ہے۔

اس کے والد محمد سرور مجاہد بھی نوائے وقت کے ساتھ منسلک تھے۔ وہ بھی پابند سلاسل رہے۔ انہیں محبوب و مرشد مجید نظامی نے مجاہد صحافت کا خطاب دیا تھا جبکہ یہ ان کا اپنا خطاب ہے اور تمام صحافی بلاتفریق انہیں بلند مرتبہ اور محترم سمجھتے ہیں اور پاکستانی صحافت کا معمار مانتے ہیں۔ ان کے لئے معمار کا لفظ رمیزہ نظامی کی ہدایت پر نوائے وقت کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے اور حمید نظامی کے نام کے ساتھ بانی کا لفظ ہوتا ہے۔
بے شمار لوگوں نے ڈی پی او اوکاڑہ رانا فیصل کو فوری طور پر معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان لوگوں میں حکومتی پارٹی مسلم لیگ ن کے منتخب ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں۔ مجھے دانیال عزیز کا نام پڑھ کر خوشی ہوئی۔ ان کے لئے اچھے جذبات دل میں پیدا ہوئے ہیں۔
شہباز شریف ان معاملات میں بہت دھڑلے کے حکمران ہیں۔ انہوں نے افسران اور پولیس افسران کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔
اس معاملے میں تاخیر نجانے کیوں ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے فوری طور پر راؤ انوار کو معطل کیا جبکہ وہ ایک دلیر پولیس افسر ہے اور پاکستانیت کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار رہتا ہے۔ بہت اچھے دل والے سی سی پی او لاہور امین وینس کے لئے ہم شکر گزار رہتے ہیں کہ وہ بہت کمال کے پولیس افسر ہیں۔ امام کعبہ آئے تھے تو وہ مولانا عبدالخبیر آزاد اور میرے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور امام کعبہ کی تقریر کے دوران زمین پر وردی سمیت بیٹھے تھے۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سے بھی خاص طور پر گزارش ہے ظالموں کے سامنے کلمۂ حق بیان کرنے والے صحافی کے خلاف اقدام کرنے والے کو نشان عبرت بنا دیں۔
ہمیں پولیس کی قربانیوں کا اعتراف ہے مگر پولیس کے مظالم کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ آخر یہ کیوں ہے کہ ظلم و ستم کرپشن اور رشوت خوری کیلئے سب سے پہلے پولیس کا ہی نام آتا ہے۔ پولیس کو سرکاری پولیس بنانے کے لئے بھی کوشش کی گئی ہے پولیس کو محافظ کہا جاتا ہے۔ محترم کب بنے گی۔ مظلوموں کو ہمیشہ پولیس یاد آتی ہے۔ تو اسے ظالموں کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ میں کئی بار بتا چکا ہوں۔ یہ بات مجھے اچھی لگتی ہے کہ میرے والد پولیس میں تھے تو میں سمجھتا ہوں کہ باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔ مجھے وردی والے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ اس سے کچھ دوستوں کو جمہوریت خطرے میں نظر نہیں آنی چاہئے۔ جمہوری حکمرانوں کو کچھ ایسا کرنا چاہئے کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے آگے حفاظتی دیوار بن جائیں۔
چھوٹے شہروں میں صحافی حضرات اور افسر شاہی بلکہ پولیس افسر شاہی میں ایک کشکمش جاری رہتی ہے۔ میں نے علی پور چٹھہ کے کسی سرکاری آدمی کی ’’افسر شاہیاں‘‘ بے نقاب کی تھیں تو مقامی نمائندہ نوائے وقت کو تنگ کیا گیا۔ میں نے اعلیٰ افسر کو فون کیا تو اس سے کوئی بات بن نہ آئی پھر اس نے صحافت کو سیاست کا میدان نہ بنایا۔ اس نے بھی شہباز شریف کی بات کی۔ میں نے اسے کہا کہ میں تم سے بہتر جانتا ہوں کہ وہ کتنا دل والا شخص ہے۔ وہ ہماری بات پر توجہ دیں گے۔
میری شہباز شریف سے خاص طور پر گذارش ہے کہ وہ پولیس افسران کو ہمیشہ حد میں رکھیں وہ اوکاڑہ کے لئے بھی توجہ فرمائیں اور ہمارے بھائی حسنین رضا کی اور ہماری دلجوئی کے لئے کچھ کریں۔ پولیس افسران کو معلوم ہو کہ لوگ ان کی رعایا نہیں ہیں اور اہل قلم جب ڈٹ جائیں تو وہ بھی حکمران ہوتے ہیں۔ ان کی حکومت دلوں پر ہوتی ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتی۔
کئی شہروں کے پریس کلب میں صحافیوں نے احتجاج کیا ہے۔ ان میں میانوالی اور شکر گڑھ کا نام بھی ہے۔ میانوالی کے لئے نوائے وقت کے نامہ نگار شرر صہبائی شہر جرأت اور بہادری کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے کئی بار جیل کاٹی مگر کلمہ حق کی پاسداری کی۔ میں ان سے ملا تھا۔ دبلا پتلا نحیف و نزار شخص تھا مگر بڑے بڑے سرکاری افسران جانتے تھے کہ اس کے قلم کی ٹک ٹک ان کے دفتروں پر ایسی ایسی دستک رقم کرتی ہے جس سے وہ خوف کھاتے تھے۔ سچے لوگ نہیں ڈرتے وہ ڈرتے ہیں جن کے دفتروں کے باہر جھوٹ کا پہرہ ہوتا ہے۔ خدا کی قسم کسی ضلع میں اگر دو آدمی ڈی پی او اور ڈی سی او کرپشن چھوڑ دیں اور انصاف کریں تو ہر طرف ایک جنت کا سماں ہو۔ مگر وہ یہ تو نہ کریں کہ لوگوں کے لئے یہ جہان جہنم کی طرح بنا دیں۔ جب صوبے کا وزیراعلیٰ کہتا ہے کہ میں خادم پنجاب ہوں تو افسران اور پولیس افسران کیوں حاکم پنجاب بنے ہوئے ہیں۔ کون ظالموں کے ساتھ ہے اور کون مظلوموں کے ساتھ ہے۔ میانوالی کے یوسف چغتائی نے پریس کلب میں ایک احتجاجی مظاہرے کا اعلان 19 ستمبر کو ساڑھے چار بجے کیا ہے۔ میں بھی اس میں شرکت کروں گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...