دہشتگردی بیرونی ہاتھ اور اندر ونی حمایت شامل ہوتی ہے، گڈ گورننس کیلئے تمام ادارے اپنی آئینی و قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں: چیف جسٹس

 چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ملک جس دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اس میں اکثر اوقات بیرونی ہاتھ شامل ہوتا ہے مگر اسے کہیں نہ کہیں سے ہمارے اندر سے بھی حمایت اور مدد حاصل ہوتی ہے، اس سلسلے میں بدقسمتی سے بعض سیاسی جماعتیں بھی اپنے مفادات کی خاطر ان عناصر کی حمایت کرتی ہیں۔ جیساکہ کراچی بد امنی کیس اور بلوچستان بدامنی کیس میں یہ عدالت اس بات کا ذکرکر چکی ہے کہ بعض تخریبی عناصر کے روابط اور تعلقات مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے پائے گئے ہیں جس کا فوری تدارک کیا جانا چاہیے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے نئے عدالتی سال -17 2016 ءکے آغاز پر سپریم کورٹ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،اس موقع پرعدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان، اٹارنی جنرل ، نائب چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دےگر عہدیداران و اراکین ِبار موجود تھے ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ ریاست پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ ریاست کا اہم جزو ہونے کی وجہ سے عدلیہ بھی اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہے،آئین میں تمام اداروں کے فرائض اور دائرہ اختیار کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ لہٰذا اداروں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں، اسی صورت میں ملک کے اندر گڈ گورننس کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ قائداعظم کے اقلیتوں کے حقوق بارے بیان کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابرکے حقوق حاصل ہوں گے اور ریاست غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کی ، قرآن و سنت کی روشنی میں، ضمانت فراہم کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم آج اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہر طرف عدم برداشت کا دور دورہ ہے۔ لوگ رنگ و نسل اور ذات پات کی بنیاد پر ٹکڑوں میں تقسیم ہیں۔ جن میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم سب سے زےادہ قابل فکر امر ہے۔ اس سے معاشرے میں نہ صرف امن و امان کی صورتحال پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ دہشت گردی کو بھی فروغ ملتا ہے۔ اس صورتحال میں اداروں کے ساتھ ساتھ تمام شہریوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ برداشت اور رواداری کو فروغ دیں تا کہ معاشرے سے عدم برداشت کو بتدریج ختم کیا جا سکے اور ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔چیف جسٹس نے کہا کہ قیام پاکستان کی بنیاد اس نظریے پر تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اےک علیحدہ ملک ہونا چاہےے جس میں وہ آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکیں۔ جہاں شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ جہاں ذات پات، رنگ و نسل، عقید ہ ومذہب کی بنیاد پر زیادتی اور ناانصافی نہ ہو۔ جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہاں پر قائد کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابرکے حقوق حاصل ہوں گے اور ریاست غےر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کی ، قرآن و سنت کی روشنی میں، ضمانت فراہم کرے گی۔ قائد کی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے آ ئین پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ نہ صرف قرار دادِ مقاصد، جسے بعد میں آرٹیکل 2A کے ذرےعے آئےن کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نہ صرف وکلاء برادری بلکہ عدلیہ کو بھی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ کےونکہ جب دہشت گردوں ، تخریب کاروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو سزا دینے کا معاملہ آتا ہے تو وکلاءکی معاونت کے ساتھ عدلیہ کو یہ فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے۔ لہٰذا فراہمی انصاف کے اس ادارے کو خوف زدہ کرنے کی نیت سے تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چاہے وہ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی ہو، مردان ضلع کچہری میں ہونے والا حملہ ہو، ماضی میں وکلاءاور عدالتوں پر ہونے والے حملے ہوں یا سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے بیٹے کے اغواءکا معاملہ ہو ہم سب اس کی بھر پورمذمت کرتے ہیں۔ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کے تدارک کے لیے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں عدلیہ اور انتظامیہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس بلائے گئے تھے۔ جن کی روشنی میں انتظامیہ اور پولیس کو ضروری ہدایات جاری کی گئیں۔ اس کے علاوہ ضلع کی سطح پر ضلعی تحفظاتی کمیٹیاںبھی تشکیل دی گئی ہیں جو علاقائی سطح پر حالات کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کریں گی۔انہوں نے کہا کہ آئےنِ پاکستان میں ایک منصفانہ ریاست کا اصول وضع کیا گیا ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی ہواور میرٹ کے اصول پر عمل درآمد ہو۔ ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب فراہمی انصاف کا نظام موثر ہو اور ہر شخص کی نہ صرف نظامِ انصاف تک رسائی ہو بلکہ فوری اور سستے انصاف کا حصول ممکن ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آئےن کے تحت ریاست پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ ریاست کا اہم جزو ہونے کی وجہ سے عدلیہ بھی اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہے۔ نہ صرف مجھے بلکہ میرے رفقاء جج صاحبان کو بھی اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر سے فریقین مقدمہ کو در پیش مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات میں ضلعی عدلیہ جو کہ عدلیہ کا ایک اہم جزو ہے میں بہتری لانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن