کلثوم نواز ہار جاتیں تو الزام شہباز شریف پر آتا؟ نواز شریف نے اپنی جانشین تیار کر لی ہے۔ میں نے پہلے کسی کالم میں لکھا تھا کہ نواز شریف کسی صورت شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کا صدر نہیں بنائیں گے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کو پاکستانی سیاست کی زیادہ خبر ہے۔ حمزہ شہباز شریف فیملی کا بہادر نمائندہ ہے مگر مریم نواز مسلم لیگ ن کی صدر بن جائیں گی؟ یہ زوال کا آغاز ہو گا۔
کلثوم نواز کی انتخابی مہم میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نظر نہیں آئے۔ کلثوم صاحبہ کے جیتنے پر نواز شریف نے صرف مریم نواز کا ذکر کیا ہے اور مبارکباد دی ہے۔ سنا ہے حمزہ شہباز کو دانستہ الگ رکھا گیا۔
چودھری نثار تو مریم نواز کو لیڈر ہی نہیں مانتے مگر اب تو وہ ”لیڈر“ بن گئی ہیں۔ نواز شریف اپنے گھر سے باہر نکلتے ہی نہیں۔ ٹکٹ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو دیا اور ان کی انتخابی مہم کا انچارج مریم نواز کو بنایا۔
اب کیپٹن صفدر کو حمزہ صاحب سے زیادہ ترجیح دی جانے لگ گئی ہے جبکہ حمزہ تو شریف فیملی کی نمائندگی کرتا ہے۔ کبیر تاج کے ساتھ اس کے بارے میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ کبیر تاج حمزہ صاحب سے بہت محبت کرتا ہے۔ عزت کرتا ہے۔
حلقہ 120 کے الیکشن میں حمزہ نظر نہیں آئے۔ وہ غالباً بیرون ملک گئے ہوئے ہیں۔ وہ یہاں ہوتے بھی تو نجانے کہاں ہوتے؟
نواز شریف کا دل اب بھی تبدیل نہیں ہوا۔ وہ اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے۔ یہ بات اعتزاز احسن نے کہی ہے۔ ہمارا عارضی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نواز شریف کے پاس لندن میں حاضر ہوا ہے۔ یہ حاضری سیاسی حضوری میں بدل جاتی ہے۔ زندگی جس طرح کھنچ گھسٹ کر کہیں جا رہی ہے۔ ہر آنے والا اس سواری کو شہسواری بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ شہسواری ہو یا نہ ہو وہ شہسوار کہلوانے لگ جاتا ہے۔
حلقہ 120 کے الیکشن کا بہت زور شور رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان عارضی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ہو گا کہ اب مستقل وزیراعظم منتخب ہو گئی ہیں۔
ایک سادہ دوست کہہ رہا تھا کہ نواز شریف بہت شریف آدمی ہیں۔ جب بھی انہیں نکالا گیا جمعتہ المبارک کے دن نکالا گیا۔ اب انہیں یہ کہنا بند کر دینا چاہیے ”مجھے کیوں نکالا“۔ پچھلے دنوں کرکٹ میچ کے دوران کئی لڑکے باقاعدہ گیت گا رہے تھے مجھے کیوں نکالا۔ مجھے کیوں نکالا۔ نواز شریف نے وزیر خارجہ بھی خواجہ آصف کو بنا دیا ہے وہ بین الاقوامی دانش کا ثبوت جگہ جگہ فراہم کر رہے ہیں۔
چودھری شجاعت نے کہا ہے کہ کلثوم نواز جیت بھی گئی ہیں تو نواز شریف پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ مریم نواز بھی لندن گئی ہیں تاکہ نواز شریف کو حوصلہ دیں؟
مشاہداللہ خان بہت مزے کی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی اشعار بھی سناتے ہیں۔ ”میں پانامہ کا پاجامہ اتار دوں گا۔“ وہ پہلے یہ بتائیں کہ یہ پاجامہ پہنا ہوا کس نے ہے؟ اور پانامہ کا معاملہ کس کے لیے شروع ہوا تھا۔
بہت بڑے باپ کا بیٹا مسعود شورش جب بھی کوئی غیرسیاسی بات کرتا ہے تو اپنے عظیم اور بہادر والد کی تقریر اور تحریر میں یکتا شورش کاشمیری کی بات کرتا ہے۔ صحافت، شعر و ادب، جوش خطابت برجستگی بے ساختگی اور مردانگی کے کئی دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ ہر بار مجھے نئے دروازے سے وہاں لے جاتا ہے جہاں میں دم بخودگی اور بے چارگی میں ڈوب جاتا ہوں۔ جملہ کہنے کا جو فن شورش کاشمیری کے پاس تھا بس انہی کے پاس تھا۔ وہ کہتے ہیں:
وہ خوبی کیا خوبی ہے کہ جس کے لیے خود انسان اشتہار بن جائے۔
میں حکمرانوں سے اس لیے مرعوب نہیں ہوا کہ انسان فانی ہے اور اقتدار عارضی۔
اپنی مرضی کے ختم ہو جانے کا نام قید ہے۔
اب ایک جملہ مسعود شورش کا بھی سنئے کہ اسے اپنے عظیم والد کے سینکڑوں جملے یاد ہیں۔
میری اور اس کی عمر میں تیس برس کا فرق تھا۔ وہ ایک چڑھتی ندی تھی اور میں ایک اترتا دریا۔