خبر آئی ہے کہ پاکپتن میں لوگوں کا ایک جم غفیر جمع ہے اور وہ سب بہشتی دروازے سے گزرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہشتی دروازہ بھی سال میں چند مخصوص دنوں میں کھولا جاتا ہے۔ ہزاروں لوگ چند دنوں میں ایک دروازے سے کیسے گزریں۔ ہر شخص پہلے گزرنے کے شوق میں زور لگاتا ہے۔ ایک مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ مقابلہ بھی عجیب ہے کہ کوئی مدمقابل نہیں ہے۔ بس پہلے دروازے سے گزرنے پر ہی زور آزمائی ہوتی ہے۔ بھگدڑ مچ جاتی ہے تو پہلے بھاگ دوڑ بھی شروع ہوتی ہے۔
یہ دروازہ سارا سال کھلا کیوں نہیں رہتا۔ کوئی بھی جب چاہے بہشتی دروازے سے گزرے۔ نجانے کیوں سب لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ اس دروازے سے گزرنے کے بعد وہ بہشت میں ضرور جائیں گے مگر وہ اس دروازے سے گزرنے کے بعد پھر اپنی اسی دنیا میں ہوتے ہیں جن کا کوئی راستہ بہشت کی طرف نہیں جاتا۔
یہ بابا فرید نے کہا تھا
نجانے کس بے ساختہ لمحے میں، بے خودی کی کیفیت میں ان کی زبان سے نکل گیا۔ اس میں کوئی حقیقت ضرور ہوگی۔ میں بھی بہشتی دروازے سے گزرا رہا ہوں مگر جو ہماری زندگی ہے‘ ہم جو کچھ کرتے ہیں‘ شاید ہم کسی طور پر بہشت کے مستحق نہیں ہیں۔ ہم اپنے کاموں سے اس دنیا کو بہشت بنا سکتے ہیں مگر ہم اسے دوزخ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
ایک دوسرے کے کام آنا‘ ایک دوسرے سے محبت کرنا اور بہت سے کام ایسے ہیں کہ جن پر کچھ خرچ نہیں آتا۔ مسکرانے پر کیا خرچ آتا ہے‘ اس طرح ہم اپنے آپ سے بھی نیکی کرتے ہیں ‘ مسکرانے سے‘ کسی کو مسکرا کر ملنے سے ہمارے لئے بھی بہت اچھا ہوتا ہے۔
کسی نے بھی مجھے محبت سے دیکھا تو میں سرشار ہو جاتا ہوں اور بے قرار بھی ہوتا ہوں۔ اب اس کیلئے کیا کروں۔ کوئی بچہ بھی مسکرا کر دیکھے تو ایک انوکھی خوشی ہمیں گھیر لیتی ہے۔ میرا ایک دوست بچہ ہے۔ اذلان‘ وہ چار پانچ سال کا بچہ ہے۔ وہ کہتا ہے میں نے اُم نصرت کے دفتر جاناہے۔ کوئی پوچھے کہ وہاں کیا کرو گے تو وہ اپنے ماموں عمیر خالد کو کہتا ہے کہ میں اپنے فرینڈ (دوست)سے ملوں گا۔ دوست کیلئے پوچھا جائے تو وہ میری تصویر کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ میں اس کے سامنے بیٹھا ہوتا ہوں اور ہم سب مسکرا دیتے ہیں۔ اس کی ماںہنسنے لگتی ہے۔ وہ ہر وقت ہنستی رہتی ہے۔ بیٹی عمارہ کی ہنسی بہت معصوم اور بے ساختہ ہوتی ہے جسے وہ نہیںہنستی‘ میں نے اذلان کے ابو عرفان صاحب سے پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ گھر میں بھی ہر وقت ہنستی ہی رہتی ہے۔ وہ مائرہ کے دفتر میں بھی ہنستی رہتی ہے۔ بہت اچھا لگتا ہے۔ ہر وقت ہنسنے والا آدمی زیادہ معصوم ہوتا ہے۔
دنیا دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ زندگی بے مزہ ہو گئی ہے۔ اب ہر شخص مصروف ہے۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ہر شخص کو لگتا ہے کہ مسکرانے اور ہنسنے سے شاید اس کا کچھ خرچ ہو جائے گا۔ اس کا کچھ خرچ ہوگا مگر دوسروں کو بہت کچھ مل جائے گا۔ برادرم حسن نثار نے لکھا ہے کہ مسکراہٹ ایک ایسے پاسپورٹ کی مانند ہے جس کیلئے کوئی ویزا درکار نہیں ہے۔ نجانے یہ کس نے کس کو کہا تھا۔اک بار مسکرا دو۔ میں کہتا ہوں بار بار مسکرائو کہ اس دکھ بھری زندگی کو مسکراہٹ اپنی لپیٹ میں لے لے۔ دکھ مزیداربھی ہوتے ہیں۔ ایک سردار افسانہ نگار بیدی کے افسانے کا عنوان تھا ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد ایک بڑے ماہر تعلیم اور صاحب دل آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنی صحت کیلئے ایک مرکز کا افتتاح کیاہے۔ نئی نسل ذہنی طورپر نارمل ہوگی پھر اس قابل ہوگی کہ قومی ترقی کیلئے بھی کوئی کردار ادا کر سکے۔ آصف زرداری نے خواجہ آصف کیلئے کہا وہ وہ انگریزی بھی پنجابی میں بولتے ہیں۔
ماروی میمن نے کہا کہ حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی نوازشریف حکمران کی طرح لگتے ہیں۔ ان کے اردگرد جو لوگ ہیں‘ ان کے پاس نہ دل ہے نہ دماغ؟
مدیر ’’ہلال‘‘ راولپنڈی یوسف عالمگیرین کے پنجابی زبان میں دو اشعار
اپنے پنڈ نوں جاواں کیکن
ٹُر جاواں تے آواں کیکن
ماں باجھوں ہن کچھ نہیں لبھدا
کٹھیاں کروا دعاواں کیکن
بہشتی دروازہ
Sep 19, 2018