چونیاں سے اغوا ہونے والے چار میں سے تین بچوں کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کر کے نعشیں چونیاں انڈسٹریل ایریا کی جھاڑیوں میں پھینک دی گئیں، تینوں بچوں کی لاشیں برآمد کر لی گئی ہیں، چوتھے بچے کی باقیات بھی مل گئی ہیں۔ دو ناقابل شناخت ہیں، ابھی ایک بارہ سالہ بچہ تاحال لاپتہ ہے۔
خبر پڑھ کر ہر صاحب اولاد کے رونگٹے کھڑے ہونا تو فطری امر ہے لیکن مجموعی تصویر جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ علاقے میں درندہ یا درندے داخل ہو گئے اور یہ علاقہ ان کے لیے آسان چراگاہ بن گیا جہاں کم سن یا نوعمر بچے اُن کا خصوصی شکار ہیں۔ ضلع قصور میں بچوں کی زیادتی کے کیس تسلسل سے سامنے آ رہے ہیں۔ وہ جب اور جس کو چاہتے ہیں اُچک لیتے ہیں اور ہوس پوری کر کے نہایت سنگدلی کے ساتھ قتل کر کے پھینک دیتے ہیں۔ اگر زینب کیس میں مجرم کو سرِعام پھانسی دے کر عبرت کانشان بنایا جاتا تو ایسے واقعات رونما ہونے سے روکے جا سکتے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت جن کی ذمہ داری ہے ،اُنہوں نے نااہلی اور غفلت کا ثبوت دیا ہے۔ تینوں بچوں کی لاشیں ایک ہی جگہ ملنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام واقعات کے پیچھے ایک ہی ملزم یا ملزمان کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اور ملزموں کا جلد سراغ لگانے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم متعلقہ پولیس کا بھی سختی سے محاسبہ کیا جاناضروری ہے۔ عوامی نمائندوں اور اعلیٰ حکام کو مقتول بچوں کے والدین سے ملنا اور ان کی دل جوئی کرنا اور اُنہیں یقین دلانا ہو گا کہ سفاک ملزموں کا جلد ہی سراغ لگا کر اُنہیں نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ حکومت بھی اس سانحہ کو محض مقامی واردات نہ سمجھے، بلکہ یہ ایک ہولناک المیہ ہے۔
سانحہ چونیاں: حیوانیت کی انتہا
Sep 19, 2019