وفاقی کابینہ کا قومی میڈیا کو نکیل ڈالنے کیلئے خصوصی ٹربیونلز قائم کرنے اور پیمرا میں دائر مقدمات بھی ان ٹربیونلز میں منتقل کرنے کا فیصلہ
وفاقی کابینہ نے خصوصی میڈیا ٹربیونلز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو شکایات کا 90 دن کے اندر فیصلہ کرنے کے پابند ہونگے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جو گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں اسلام آباد میں منعقد ہوا‘ بعض عناصر کی جانب سے آزادیٔ اظہار رائے کی آڑ میں اعلیٰ حکومتی شخصیات پر بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگانے اور وزیراعظم سمیت وزراء کی زندگی کو پراپیگنڈے کا نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پریس بریفنگ میں اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ خصوصی میڈیا ٹربیونلز کی سرپرستی اعلیٰ عدلیہ کریگی۔ انکے بقول میڈیا کے حوالے سے پیمرا کی شکایت کونسل میں موجود شکایات میڈیا ٹربیونلز کو منتقل ہو جائینگی اور میڈیا ٹربیونل نئی اور زیرالتواء شکایات یا مقدمات کا بھی جائزہ لے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ حکومتی شخصیات بشمول وفاقی وزراء کے حوالے سے میڈیا میں ہونیوالے پراپیگنڈہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کابینہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مثبت تنقید کسی بھی معاشرے کی بہتری بالخصوص حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے میں معاون ہوتی ہے مگر بعض عناصر کی جانب سے آزادیٔ اظہار کو ذاتی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر فردوس عاشق کے بقول وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ حکومت پر بے جا تنقید اور حکومتی عہدیداروں اور وزراء کی نجی زندگیوں کو من گھڑت اور منفی پراپیگنڈے کا نشانہ بنانے کا مقصد حکومت اور عوام کے درمیان پائے جانیوالے اعتماد کو ہدف بنانا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی کامیابیوں کیلئے عوام کا اعتماد نہایت ضروری ہے جسے ٹھیس پہنچانے کیلئے بعض عناصر کی جانب سے جان بوجھ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے گمراہ کن معلومات پھیلائی جارہی ہیں اور اس ضمن میں بدقسمتی سے میڈیا کو آلۂ کار بنایا جارہا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم نے اجلاس میں باور کرایا کہ میڈیا کا غلط استعمال روکنے کیلئے متعلقہ قوانین میں بین الاقوامی سطح پر رائج قوانین کی طرز پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ میڈیا مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں آلۂ کار نہ بن سکے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کے بقول کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ میڈیا سے متعلق کوڈ آف کنڈکٹ پر عملدرآمد یقینی بنانے کے حوالے سے متعلقہ ادارے بشمول پیمرا بعض وجوہات کی بنیاد پر اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا نہیں کر پارہے۔ انکے بقول ان وجوہات کا جائزہ لے کر اس حوالے سے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں بے نامی ایکٹ کے تحت بھی خصوصی بنچ بنانے کی منظوری دی گئی جس کے تحت مقدمات خصوصی بنچز کو بھیجے جائینگے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں صحت مند معاشرہ کی تشکیل میں میڈیا کا بنیادی کردار ہے جو ادارہ جاتی خامیوں‘ کمزوریوں اور سماجی برائیوں کی نشاندہی اور انہیں اجاگر کرکے معاشرے میں لاقانونیت‘ من مانیوں‘ اختیارات کے ناجائز استعمال اور دوسری سماجی برائیوں کے تدارک میں معاون بنتا ہے۔ اس حوالے سے ہی میڈیا کا کردار ایک آئینے سے تعبیر کیا جاتا ہے جس میں سب کو اپنا اصل چہرہ نظر آتا ہے اور یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ کسی کو آئینے میں اپنا اچھا چہرہ نظر نہ آئے تو بجائے اسکے کہ وہ آئینے کو توڑ دے‘ اسے اپنا چہرہ خوشنما بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بیعنہٖ میڈیا اور پریس کی آزادی کا بھی یہی تصور ہے کہ اسکی بنیاد پر ہی سماجی برائیوں اور حکومتی‘ ادارہ جاتی کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے جن کے تدارک کے اقدامات اٹھا کر معاشرے کو حقیقی معنوں میں برائیوں سے پاک کرکے فلاحی جمہوری معاشرے کے قالب میں ڈھالنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ آئین کی دفعہ 19 میں آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ پریس کی آزادی کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس آئینی دفعہ کے تحت میڈیا اور پریس کو مکمل آزادی حاصل ہے ماسوائے اسکے کہ اس سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ‘ پاکستان کے وقار‘ سلامتی اور دفاع اور دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے معاملات اور اسی طرح شائستگی‘ اخلاقیات اور توہین عدالت سے متعلق معاملات پر کوئی زد نہ پڑتی ہو۔ اسکے ساتھ ساتھ آئین کی دفعہ 19۔اے کے تحت ملک کے شہریوں کو مفاد عامہ سے متعلق ادارہ جاتی معاملات تک رسائی کا حق دیا گیا ہے جس کیلئے میڈیا ہی معاون بنتا ہے۔
میڈیا کو بلاشبہ اپنی حدود وقیود‘ ذمہ داریوں اور اپنی آزادی کے تقاضوں کا احساس و ادراک ہی نہیں‘ اسکی مکمل پاسداری بھی ہے۔ میڈیا بہرصورت واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتا ہے جس میں سماجی برائیوں کی نشاندہی کے حوالے سے میڈیا کے کردار کی ادائیگی میں کسی کو اپنا چہرہ اچھا نہیں نظر آتا تو اس میں میڈیا کا کوئی قصور نہیں۔ میڈیا ایک ذمہ دار قومی ادارے کے طور پر اپنے فرائض آئین کی دفعہ 19 کے تقاضوں کے مطابق ہی سرانجام دیتا ہے۔ میڈیا کے اس کردار کی ادائیگی کے حوالے سے اگر کوئی شخصی یا ادارہ جاتی شکایت پیدا ہوتی ہے تو اسکے ازالہ کیلئے پہلے ہی تعزیرات پاکستان اور ضابطۂ فوجداری میں ہتک عزت کے مقدمات کیلئے قوانین موجود ہیں اور اسی طرح توہین عدالت ایکٹ کے تحت بھی اس نوعیت کی شکایات کیخلاف مجاز عدالتوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے جبکہ پریس کونسل اور پیمرا کے ضوابط میں بھی میڈیا کیخلاف شکایات کے ازالے کی شقیں موجود ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ یہ ادارے مردہ ہوچکے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وزیراعظم کے کابینہ سے خطاب کے حوالے سے تاثر دیا ہے جبکہ ان اداروں میں بہتری کی گنجائش بھی موجود ہے جس کیلئے میڈیا سے متعلق اداروں بشمول اے پی این ایس‘ سی پی این ای‘ پی ایف یوجے‘ پی بی اے‘ پریس کلبز سے مشاورت کرکے بہتری کے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں مگر میڈیا کے حوالے سے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی قدم اٹھایا جائیگا جیسا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلہ کے تحت میڈیا ٹربیونلز کی تشکیل کا عندیہ دیا گیا ہے تو ایسا اقدام سراسر میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے زمرے میں آئیگا جس کی کسی جمہوری معاشرے میں ہرگز گنجائش نہیں۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جن تحفظات کی بنیاد پر میڈیا کو نکیل ڈالنے کیلئے میڈیا ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ وہ بادی النظر میں حکومت کی کارکردگی کو اجاگر کرنیوالے میڈیا کے کردار سے متعلق ہیں۔ اگر حکومت محض اسی بنیاد پر میڈیا ٹربیونلز قائم کرنے کے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کا اقدام اٹھائے گی تو یہ آئین کی دفعات 19,19۔اے کے تقاضوں کے سراسر منافی ہوگا اور میڈیا پر جرنیلی آمریتوں جیسی سنسرشپ عائد کرنے اور انکی آئینی آزادیاں سلب کرنے کے مترادف ہوگا جس کیخلاف میڈیا میں ہی نہیں‘ عوام میں بھی سخت ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ کیونکہ اس سے عوام کے اطلاعات تک رسائی کے آئینی حق پر بھی زد پڑیگی۔ ایسے فیصلوں کی نوبت لانے والے حکومتی بزرجمہروں کو بہرصورت اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ قومی میڈیا کو اپنی آزادی پلیٹ میں رکھ کر حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کیلئے میڈیا نے پہلے بھی بالخصوص مارشل لاء ادوار اور جمہوری شخصی آمریتوں کے جبری ہتھکنڈوں کا سامنا کرتے ہوئے قید اور کوڑوں کی صعوبتیں برداشت کی ہیں اور آزادیٔ صحافت کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں قومی میڈیا نے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس اور ڈی پی آر جیسے سیاہ قوانین کا سامنا اور مزاحمت کی اور میڈیا کی آزادی پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں میڈیا کو بدترین سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا مگر میڈیا نے ایسے جبری ہتھکنڈوں کے آگے کبھی سرنہیں جھکایا۔ مشرف دور میں بھی میڈیا پر قدغنیں عائد کی گئیں اور انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کرکے حکومت پر میڈیا کی تنقید کو دہشت گردی جیسا جرم بنا دیا گیا۔ قومی میڈیا نے اس کالے قانونی کی بھی مزاحمت کی جبکہ بعض جمہوری ادوار میں بھی میڈیا پر قدغنیں عائد کرنے سے متعلق اقدامات کو کبھی قبول نہیں کیا گیا۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی بعض اقتصادی اور مالی پالیسیوں کے نتیجہ میں قومی میڈیا پہلے سنگین ترین اقتصادی بحران کی زد میں آیا جس کیلئے عملاً زندہ رہنا مشکل ہوگیا۔چہ جائیکہ حکومت قومی میڈیا کو اس اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے اقدامات اٹھاتی اور اس پیغمبری پیشہ میں میڈیا کو درپیش مشکلات سے نجات دلاتی‘ اب اسکی جانب سے میڈیا پر سنسر شپ جیسی آمرانہ قدغنیں لگانے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے جو فی الواقع میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت کا ایسا کوئی اقدام میڈیا کو ہرگز قبول نہیں ہو سکتا جس کے ذریعے اسکی آئین کے تحت حاصل آزادیاں سلب ہوتی ہوں اور اس کیلئے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مشکلات درپیش آتی ہوں۔ اگر میڈیا کے کردار کے حوالے سے حکومت کے کوئی تحفظات ہیں تو یہ میڈیا کے نمائندہ فورمز پر لا کر باہم مشاورت و مفاہمت کے ساتھ ان کا ازالہ کرنے کا راستہ نکالا جا سکتا ہے تاہم حکومت کسی جبری قانون کے ذریعے پریس اور میڈیا کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کریگی تو اسے میڈیا اور عوام کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں بڑھنے والی مہنگائی‘ بے روزگاری‘ لاقانونیت‘ ادارہ جاتی بدنظمی اور ملک کی سکیورٹی کو لاحق خطرات کی بنیاد پر عوام پہلے ہی سخت پریشان و مضطرب ہیں اور ان کا حکومت پر اعتماد مجروح ہورہا ہے۔ اگر ان حالات میں حکومت نے فرینڈلی میڈیا ماحول پیدا کرنے کے بجائے اسکے ساتھ اپوزیشن جیسا سلوک شروع کر دیا تو اسے بہتر گورننس کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ حکومت میڈیا پر قدغنیں عائد کرنے کی سوچ اور پالیسیوں سے رجوع کرلے اور آئین کے تقاضوں کے مطابق پریس اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنائے تاکہ جمہوریت کی بنیاد کو مستحکم بنایا جاسکے۔ موجودہ صورتحال میں ملک کسی اتھل پتھل حکومتی پالیسی کا بہرصورت متحمل نہیں ہو سکتا۔