اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویثرن بنچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل اور نیب کی طرف سے نوازشریف کی سزا میں اضافے کی درخواست پر نواز شریف کے وکلاء کو جج ارشد ملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی کی مصدقہ نقول فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت7 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ نواز شریف اور نیب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران نیب ٹیم کے علاوہ خواجہ حارث اور دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اس موقع پر راجہ ظفرالحق ، پرویز رشید ، مریم اورنگزیب ، رانا تنویر ، ایاز صادق ، خواجہ آصف ، خرم دستگیر ، برجیس طاہر ، ڈاکٹر ایاز حیدر ، ملک ابرار ، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ، رفیق رجوانہ ، لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ ، طاہرہ اورنگزیب اور مسلم لیگ ( ن ) کے دیگر رہنما بھی کمرہ عدالت موجود تھے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ کیس سے متعلق پیپر بکس گزشتہ ہفتے ہی ملی ہیں ، ان میں کچھ نقائص ہیں جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر کوئی کاغذ آگے پیچھے یا غیر ضروری طور پر لگ گئے ہیں تو اس کو دیکھ لیں گے ، اس حوالے سے آپ نے اور نیب ٹیم نے ہماری معاونت کرنی ہے ، خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کے علم میں ہے کہ جس جج نے العزیزیہ کیس کا فیصلہ سنایا انہوں نے پریس ریلیز اور بیان حلفی جمع کرایا جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ انہیں اسی لئے ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے کہ آپ معاونت کریں اس کا کیا اثر پڑ سکتا ہے، سابق جج کا بیان حلفی اور پریس ریلیز اوریجنل ریکارڈ کا حصہ ہے ، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں پریس ریلیز اور بیان حلفی فراہم کیا جائے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی بیان حلفی مانگا تھا مگر وہ اوریجنل فائل کا حصہ ہے ، خواجہ حارث نے کہا کہ میڈیا میں تو اس حوالے سے کافی کچھ آتا رہا ہے مگر ہم اوریجنل بیان حلفی دیکھنا چاہتے ہیں ، سپریم کورٹ نے آپ کو پہلے ہی کافی کچھ بتا دیا ہے کہ اس معاملے پر آپ کو کیا کرنا چاہئے ، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ میں آرڈر میں یہ لکھوا دوں کہ پیپر بکس کی تیاری کا کام مکمل ہو چکا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایک ڈاکومنٹ ان پیپر بکس میں شامل ہی نہیں جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا کوئی ڈاکومنٹ جو شواہد کا حصہ ہے مگر پیپر بکس میں شامل نہیں تو وہ پیش کیا جا سکے گا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ 3 ماہ میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر دلائل مکمل کر لوں گا۔