اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر ٹی، ایس، تیرہ مورتی متحدہ کی سلامتی کاؤنسل سے کشمیر سے متعلق قراردادوں کو ’’فرسودہ‘‘ کہ کر منسوخی کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت کی اس سازش کے جواب میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب منیراکرم نے بیان دیا ہے کہ بھارتی نمائندے یا تو خود کو دھوکہ دے رہے، یا اپنی عوام کو دھوکہ دے رہے کہ وہ سلامتی کاؤنسل کے ایجنڈے سے کشمیر کو ختم کردیں گے۔ ’’دوسر ی جانب ڈاکٹر سید نذیر گیلانی صدر جموں کشمیر کو نسل برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ ’’بھارت جبری سفارت کاری میں ملوث ہے، جسکا کوئی مستقبل نہیں۔‘‘ ڈاکٹر ، غلام بنی فائی، سیکریڑی جنرل ورلڈ کشمیر ابونڈنیس فورم نے اس معاملے پہ جامع تحریر سے دنیا کو آگاہی فرمائی۔بھارتی مندوب بھول رہے ہیں کہ 2جنوری 2020ء کو جناب انتو نیو گٹیرس جو اقوام متحدہ کے سیکوریٹی جنرل ہیں نے اپنے سرکاری بیان اور فرمان جاری کرتے ہوئے56موضوعات پہ اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں بحث کی منظوری دی جن میں بھارت اور پاکستان کے مابین مسئلہ کشمیر شامل ہے۔
ْٓقارئین کی اطلاع کے لئے یہ عرض ہے کہ بھارتی مندوب بھول رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے ایجنڈے سے کسی بھی موضوع کو سلامتی کاؤنسل کے طریقہ کار اور بنیادی اصولوں پہ عمل کئے بغیر منسوخ نہیں کیا جاسکتا ۔ کوئی بھی موضوع اس وقت تک منسوخ نہیں کیا جا سکتا جب تک تنازعہ حل نہ ہوگیا یا سلامتی کاؤنسل کے تمام پندرہ اراکین کے درمیان اتفاق ہو تو یہ ہٹانا ممکن ہے۔ مسئلہ کشمیر کے معاملے میں ان شرائط میں سے کسی کا اطلاق نہیں ہوتا ہے جموں وکشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں بھارت اور پاکستان کے لئے ملیٹری آبزرورگروپ United Nations Military Observer
Group (UNMOGIP) کی موجودگی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ مسئلہ سلامتی کاؤنسل کے ایجنڈے پہ موجود ہے۔بھارت کشمیر کے تنازعے کو ’’فرسودہ‘‘ قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔ گو کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے کی خاطر قراردادوں کو منظور کئے سات دہایاں گذرگئیں لیکن محض وقت کا گذرنا حقیقت کو جھٹلانہیں سکتا۔ یہ قراردادیں آج بھی لاگو ہیں کیونکہ ان پہ عمل درآمدد نہیں ہو ااسلئے یہ نہ فرسودہ ہوسکتی ہیں نہ متروک مسئلہ کشمیر سے متعلق قراردادیں اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں عالمی حمائت سے منظور کی گئی تھیں اور وقت کا گذرنا ایک پائدار اور ناقابل تلافی اصول ہے جو کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دیتا ہے ۔ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر وقت گذرنے کے ساتھ بین الاقوامی معاہدے ختم ہو جاتے تو اقوام متحدہ کے میثاق کا بھی وہی حشر ہوتا جو کشمیر سے متعلق قرارداروں کا ہورہا ہے۔ اگر غیر عمل در آمد ہوئے سے معاہدے ختم ہو جاتے تو اکیسویں صدی میں جینوا کنونیشن پہ کچھ ملکوں کا اس اہم معاہدے پہ غیر عمل درآمد معاہدے کو ختم نہیں کرتا۔کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قراردادیں معمول کی نوعیت نہیں۔ اسکے متن کے ایک ایک لفظ اور ہرشق پہ غور وخوض کیا گیا تھا اور دونوں ملکوں یعنی بھارت اور پاکستان کے مندوبین نے بحث ومباحثے کے بعد اسے قبول کیا پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل نے اسے اپنا یا تھا۔ بھارت اور پاکستان کی ان قراردادوں پہ اتفاق رائے کو تحریری طورپر آگاہ کیا گیا تھا یوں یہ قراردادیں اقوام متحدہ کی سنجیدہ کوششوں کا نتیجہ ہیں۔سلامتی کاؤنسل کی قراردادیں کشمیری عوام کے اپنے وطن کے مستقبل کی حیثیت کے تعین کے حق کی واضح ضمانتیں ہیں۔ قراردادوں کی دفعات کسی بھی جانب سے عدم کار کردگی سے غیر متاثر رہتی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ بھارت کا اپنا موقف تھا کہ جموں وکشمیر کی حیثیت سے متعلق تنازعہ صرف کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہی طے کیا جاسکتا ہے جسکا اندازہ آزاد اور غیر جانب دار رائے شماری کے جمہوری طریقہ کار کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے ۔
بھارت کے اس مئوقف کی تائد اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں کسی بھی اختلاف رائے کے بغیر امریکہ، برطانیہ اور دوسری جمہوریتوں کی حمایت سے منظور کیا گیا تھا۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اس وقت اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر سرگوپا لسوامی آئا نگر نے 15جنوری 1948ء کو اپنی حکومت کا مئوقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ یہ سوال خواہ کشمیر بھارت سے الحاق کرے یا پاکستان کے یہ حق کشمیریوں کا ہے جسے ہم قبول کرتے ہیں۔ اس اہم مسئلے پہ بھارت کے بانی مہاتماگاندھی نے تاریخی بیان دیا تھا کہ‘‘ کشمیریوں کی مرضی ہی کشمیر کے لئے سب سے بڑا قانون ہے۔‘‘ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے تاریخی بیان دیتے ہوئے۔2نومبر1947ء کو فرمایا تھا کہ ’’ ہم نے اعلان کیا ہے کہ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ بالآخر اسکے عوام نے کرنا ہے۔ یہ عہد ہم نے نہ صرف کشمیری عوام سے بلکہ پوری دنیا سے کیا ہے۔ ہم ہرگز اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفیر وارن آسٹن نے24جنوری1948ء کو سلامتی کاؤنسل کے اجلاس نمبر:235کے دوران بیان دیا تھا کہ ’’ جب بھارت نے کشمیر کے الحاق کے حق کو قبول کیا تو یہ منصفانہ رائے شماری کے اصول سے مشروط تھا جو تاریخ کے لئے مثال تھا۔‘‘ اسی طرح امریکہ کے سیکریڑی خارجہ جان فوسڑڈلس نے5فروری 1957ء کو بیان دیا تھا کہ’’ ہم اس امرپہ یقین رکھتے ہیں کہ جب تک فریقین کسی اور حل پہ راضی نہیں ہوجاتے ،سلامتی کاؤنسل کی منظورشدہ قرارداد حاوی ہے کہ استصواب رائے ہونا چاہیے۔‘‘ افسوس کہ نہ صرف بھارت نے بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی قراردادوں کوردی کی ٹوکری میں ڈال دیا بلکہ 5اگست2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی آئنی حیثیت کو ختم کر کے بھارت میں ضم کردیا۔ اب یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسوخی چاہتا ہے۔ پاکستان اور کشمیریوں کو مل کر کشمیری عوام کے حق کا دفاع کرنا چاہیے۔