ایک محبت سو افسانے 

Sep 19, 2020

ایک دانشور محقق افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد ستمبرکے ماہ ہم سے جدا ہوگئے اور اس طرح ایک عہد اپنے پیچھے عہد ساز تعمیری سوچ چھوڑ گیا جس پر چل کر تہذیبیں نکھرتی ہیں ان کی شخصیت کے کئی قد آور پہلو تھے اور ہر پہلو منفرد اور جداگانہ تھا ان کے اندر صوفی منش درویش معرفت کے دروازے کھولتا ان دروازوں کے اندر کئی دنیائیں آباد تھیں جہاں پر کہیں فلسفہ پوری آب وتاب سے اپنے اثرات مرتب کرتا ہے کہیں تصوف ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے اور کہیں ان کے ڈراموں کے کردار زندگی کی حقیقتوں کا پتہ دیتے ہیں در حقیقت جس
 طرح پھول میں یکسانیت نہیں ہوتی رنگ برنگے پھول کاروبار گلشن کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں اسی طرح ان کی شخصیت کے علمی اور ادبی پہلو گلستان ادب کو مہکائے ہوئے ہیں ایک مرتبہ راقمہ نے بانو قدسیہ سے انٹرویو کے دوران جب سوال کیا کہ آپ کے نزدیک اشفاق احمد کی شخصیت کا کونسا پہلو تمام پہلوؤں پر حاوی ہے تو انہوں نے جوابدیا کہ اشفاق احمد ہر پہلو سے یکتا اور بیگانہ تھے وہ مفاہیم کی گرہیں کھول کر قاری کے سامنے بڑی بڑی حقیقتیں آشکار کردیتے تھے ڈرامہ نگاری کی طرف قدم بڑھایا تو اعتبار انتظار اور وفا کے موسم پردہ سکرین پر لہرانے لگے افسان نگاری کی طرف آئے تو کو منفردمفہوم عطاا کیا روحانت کی طرف آئے تو لوگ بابا اشفاق کہنے لگے یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ممتاز مفتی قدرت اللہ شہاب بانو قدسیہ نے روحانیت کے برگ کو بارآور بنایا ڈاکٹرسہیل احمد گرچہ اسی راستے کے مسافر تھے لیکن وہ اندر کی روشنی سے باہر کی دنیا منور کرنا چاہتے تھے انکی کتاب داستانوں کی علامتی کائنات اسی روشنی کا خلاصہ ہے جبکہ اشفاق احمد باہر کی روشنی سے باطن کی صفائی پر زور دیتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہفتے میں ایک بار اندر کے کاٹھ کباڑ کی ضرورت ہے اشفاق احمد کا سب سے بڑا کارنامہ ادب کو گڈریا جیسی کہانی اور ٹی وی کے لئے ایک محبت سو افسانے لکھا اس ڈرامہ سیریز میں محبت کو مختلف انداز میں دیکھا پرکھا اور جانا گیا ان کے ہاں محبت کا گر سطحی جذبہ موجود ہے تو محبت کا جذبہ جب ان کے ہاں قنوطیت کا رنگ لیتا ہے تو تصوف اور گہرائی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے محبت کے بارے میںان کے کچھ
 ارشادات سے ان کی فکرمندی کا اندازہ ہوتا ہے کہتے ہیں کہ میرا پہلا بچہ میری گود میں تھا میں ایک باغ میں بیٹھا تھا اور مالی کام کر رہے تھے ایک مالی میرے پاس آیا اور کہنے لگا ماشاء اللہ بہت پیارا بچہ ہے میں نے کہا آپ کے کتنے بچے ہیں مالی نے کہا آٹھ بچے ۔اشفاق احمد نے کہا کہ میں نے مالی سے کہا کہ میں اپنی محبت کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرنے کو تیار نہیں اس پر مالی نے کہا کہ صاحب محبت کو تقسیم نہیں کرتے ضرب دیتے ہیں ایک اور موقع پر کہتے ہیں کہ محبت وہ شخس کر سکتا ہے جو اندر سے مطمئن ہو اور پر باش ہو محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگا لیا سونے کا تمغہ نہیں سینے پر سجا لیا پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی محبت تو روح ہے آپکے اندر کا اندر آپکی جان کی جان محبت کا دروازہ ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا اپنی ایگو اور اپنے نفس سے جان چھڑا لیتے ہیں ۔

مزیدخبریں