ایک دانشور محقق افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد ستمبرکے ماہ ہم سے جدا ہوگئے اور اس طرح ایک عہد اپنے پیچھے عہد ساز تعمیری سوچ چھوڑ گیا جس پر چل کر تہذیبیں نکھرتی ہیں ان کی شخصیت کے کئی قد آور پہلو تھے اور ہر پہلو منفرد اور جداگانہ تھا ان کے اندر صوفی منش درویش معرفت کے دروازے کھولتا ان دروازوں کے اندر کئی دنیائیں آباد تھیں جہاں پر کہیں فلسفہ پوری آب وتاب سے اپنے اثرات مرتب کرتا ہے کہیں تصوف ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے اور کہیں ان کے ڈراموں کے کردار زندگی کی حقیقتوں کا پتہ دیتے ہیں در حقیقت جس
طرح پھول میں یکسانیت نہیں ہوتی رنگ برنگے پھول کاروبار گلشن کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں اسی طرح ان کی شخصیت کے علمی اور ادبی پہلو گلستان ادب کو مہکائے ہوئے ہیں ایک مرتبہ راقمہ نے بانو قدسیہ سے انٹرویو کے دوران جب سوال کیا کہ آپ کے نزدیک اشفاق احمد کی شخصیت کا کونسا پہلو تمام پہلوؤں پر حاوی ہے تو انہوں نے جوابدیا کہ اشفاق احمد ہر پہلو سے یکتا اور بیگانہ تھے وہ مفاہیم کی گرہیں کھول کر قاری کے سامنے بڑی بڑی حقیقتیں آشکار کردیتے تھے ڈرامہ نگاری کی طرف قدم بڑھایا تو اعتبار انتظار اور وفا کے موسم پردہ سکرین پر لہرانے لگے افسان نگاری کی طرف آئے تو کو منفردمفہوم عطاا کیا روحانت کی طرف آئے تو لوگ بابا اشفاق کہنے لگے یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ممتاز مفتی قدرت اللہ شہاب بانو قدسیہ نے روحانیت کے برگ کو بارآور بنایا ڈاکٹرسہیل احمد گرچہ اسی راستے کے مسافر تھے لیکن وہ اندر کی روشنی سے باہر کی دنیا منور کرنا چاہتے تھے انکی کتاب داستانوں کی علامتی کائنات اسی روشنی کا خلاصہ ہے جبکہ اشفاق احمد باہر کی روشنی سے باطن کی صفائی پر زور دیتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہفتے میں ایک بار اندر کے کاٹھ کباڑ کی ضرورت ہے اشفاق احمد کا سب سے بڑا کارنامہ ادب کو گڈریا جیسی کہانی اور ٹی وی کے لئے ایک محبت سو افسانے لکھا اس ڈرامہ سیریز میں محبت کو مختلف انداز میں دیکھا پرکھا اور جانا گیا ان کے ہاں محبت کا گر سطحی جذبہ موجود ہے تو محبت کا جذبہ جب ان کے ہاں قنوطیت کا رنگ لیتا ہے تو تصوف اور گہرائی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے محبت کے بارے میںان کے کچھ
ارشادات سے ان کی فکرمندی کا اندازہ ہوتا ہے کہتے ہیں کہ میرا پہلا بچہ میری گود میں تھا میں ایک باغ میں بیٹھا تھا اور مالی کام کر رہے تھے ایک مالی میرے پاس آیا اور کہنے لگا ماشاء اللہ بہت پیارا بچہ ہے میں نے کہا آپ کے کتنے بچے ہیں مالی نے کہا آٹھ بچے ۔اشفاق احمد نے کہا کہ میں نے مالی سے کہا کہ میں اپنی محبت کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرنے کو تیار نہیں اس پر مالی نے کہا کہ صاحب محبت کو تقسیم نہیں کرتے ضرب دیتے ہیں ایک اور موقع پر کہتے ہیں کہ محبت وہ شخس کر سکتا ہے جو اندر سے مطمئن ہو اور پر باش ہو محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگا لیا سونے کا تمغہ نہیں سینے پر سجا لیا پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی محبت تو روح ہے آپکے اندر کا اندر آپکی جان کی جان محبت کا دروازہ ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا اپنی ایگو اور اپنے نفس سے جان چھڑا لیتے ہیں ۔
ایک محبت سو افسانے
Sep 19, 2020