اگر صوبہ سندھ کے چھوٹے بڑے مسائل کی فہرست بنائی جائے تو اُس میں ایک بہت اہم اور تکلیف دہ مسئلہ کوٹہ سسٹم بھی ہے۔اس کو روشناس کروانے والوں میں دو نام لئے جاتے ہیں۔ پہلا لیاقت علی خان کا جب وہ 1948 میں وزیرِ اعظم تھے اور دوسر ا نام ذوالفقار علی بھٹوکا جنہوں نے 1972 میں صوبہء سندھ میں اس کو 10 سال کی مدت کے لئے نافذ کیا۔اِن دونوں کے درمیان ایک تیسرا نام ، 1970 میں مارشل لاء کے دور کے رحمان گل کا بھی ہے۔انہوں نے شہری دیہی کوٹے کا نفاذ کیا جِس میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر کی 40 فی صد نمائندگی اور باقی صوبے کی60 فی صد مقرر ہوئی۔ آگے چل کر اِس کو 1973 میں آ ئینی تحفظ بھی حاصل ہو گیا۔ آج اس بات کو 47 سال ہونے کو آئے لیکن یہ اب بھی نافذ ہے۔ کوٹے سسٹم کے ضمن میں جو بات سندھ کو دوسرے صوبوں سے ممتاز کرتی ہے وہ کوٹے کی یہی شہری اور دیہی تقسیم ہے۔کوٹا سسٹم کے معماروں کے ذہن میں یہ بات لازماََ رہی ہو گی کہ جب کوٹے کے مقاصد حاصل ہو جائیں تو اِس کو ختم کر دیا جائے گالیکن بد قسمتی سے نفاذِ اُردو کی طرح حکومتِ پاکستان کے مانگے ہوئے 6 ماہ کی طرح یہ 10 سال بھی شیطان کی آنت بن گئے۔ کوٹا سسٹم کوئی بہت نئی بات نہیں۔قائدِاعظم ؒ کے مشہورِ زمانہ 14 نکات میں بھی مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کی بات کی گئی تھی۔ اسی کی بنیاد پر انگریز نے 1926 میں مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں کا 25 فی صدکوٹا جاری کیا جو اُس وقت کی ضرورت اور مسلمانوں کی بڑی کامیابی تھی۔بات صوبہ سندھ کی ہو رہی ہے۔یہاں جاری کوٹا سسٹم کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں محض 7 فی صد افراد اہلیت کی بنیاد پر لئے جاتے ہیں۔ باقی ’’ برائے فروخت ‘‘ کوٹے میں شمار ہوتے ہیں ۔جب انتہائی اہمیت کی حامِل سرکاری نوکریوں پر تقرری کی کسوٹی محض ڈومیسائل بنا دیا جائے تو پھر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کہاں جائیں گے؟ ذرا یہ دیکھئے کہ مقابلے کے امتحان میں کہیں کم نمبر لینے والا ، اپنے سے زیادہ نمبر لینے والوں کو ایک طرف کرتے ہوئے منتخب کیا جاتا ہے۔کیا یہ بے انصافی نہیں؟ چلیں کچھ عرصہ کسی مصلحت یا صوبہیکے مفاد کی خاطر یہ کڑوے گھونٹ پی بھی لئے جائیںتو بھی آخر کب تک؟ اب اگر کوٹے سسٹم کو مزید چلتے ہی رہنا ہے تو کم از کم غیر ممالک میں پاکستانیوں کو درپیش مسائل کسی اہل شخص سے حل کروائے جا ئیں ۔پاکستان کسٹمز، پولیس، چھوٹے بڑے شہروں کی انتظامیہ ، انکم ٹیکس اور دیگر مالیاتی اداروں میں ان کا اطلاق نہیں ہونا چاہیئے۔کوٹا سسٹم کو وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے مگر …۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1973 میں کوٹا سسٹم کو جو آئنیی تحفظ فراہم کیا گیا تھا وہ خود اِسی آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف و رزی ہے۔ کوٹا سسٹم میں بھی شروع میں کوئی قواعد و ضوابط تھے ، جیسے تحریری امتحانات میں کم از کم اتنے نمبر حاصل کرنے والے سرکاری ملازمت کے اہل ہو سکتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ اِس سے کئی ایک سیٹیں خالی رہیں کیوں کہ کوٹے میں آنے والے اُس کم از کم اہلیت یا قابلیت پر بھی پورا نہیں اترتے تھے۔تب کم نمبر والے ، اُس استبدادی قابلیت سے مبرا قرار دے دیئے گئے۔اب جب آپ بہت ذمہ داری کی جگہ پر ایک نا اہل شخص کو بٹھا دیں گے تو اول تو وہ خود احساسِ کمتری کا شکار ہو گا دوم اپنے ماتحتوں کے زیرِ اثر ہو گا۔یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوا کرتا ہے، رشوت بد عنوانی خدا داد نہیں بلکہ اپنائی جاتی ہے۔ یہ ینگ ڈاکٹرز کا آئے دِن کا رونا بھی اِسی کا شا خسانہ ہے۔ یہ دیکھتے ہیں کہ ایک مدت کی دماغ سوزی کے بعد وہ کہیں ڈاکٹر بن کر سرکاری ملازمت حاصل کرتے ہیں اور اگلے درجے میں ترقی پانے کے لئے قیامت کا انتظار رہتا ہے جبکہ DMG میں آنے والے مذکورہ گریڈ ان سے کہیں پہلے حاصل کر لیتے ہیں ۔اب آئیے چند سوالات کی جانب: یہ شہری اور دیہی کا تقسیمی کوٹا صرف سندھ میں ہی کیوں ہے؟ یہ کبھی ختم بھی ہو گا یا پھر اسے جاری ہی رہنا ہے؟ اگر اِس کے نفاذ سے کچھ بہتری کی توقع تھی تو کیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے؟ پسماندہ علاقوں سے اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں فائز ہونے والوں نے کیا اپنے علاقوں سے پسماندگی کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی؟کیا اِن 47 سالوں میں کوٹے سسٹم نے دیہی علاقے میں علمی قابلیت بڑھائی تا کہ وہاں کا نوجوان ، شہری علاقوں کے نوجوان سے مطابقت کر سکے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس پالیسی سے صرف اشرافیہ کو ہی فائدہ پہنچانا مقصود تھا جِن کے پاس پس ماندہ دیہی علاقوں کے ڈومیسائل تھے مگر بڑے شہروں میں اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلوا کر اِسی کوٹے میں اچھی سرکاری ملازمتیں دلوائی گئیں؟ اِس فہرست میں واقعی ضرورت مند، شاید ڈھونڈے سے بھی نہ مِلے۔ جب نہایت اہمیت کی حامل سرکاری ملازمتیں اہلیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نہ دی جائیں تو کیا ہمارا ملک اقتصادی طور پر ترقی کر سکے گا؟ افسوس ہے کہ سندھ کے صاحبِ بصیرت دانش وروں نے ایک زمانے سے جاری اس کوٹہ سسٹم سے پیدا ہونے والی برائیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی محرومیوں پر اُس طرح بات نہیں کی جس طرح بات کرنے کا حق تھا۔ہماری اربابِ اختیار سے بس اتنی گزارش ہے کہ وہ آنے والے 10 سال سندھ کے کوٹا سسٹم کو ختم کر کے ایک تجربہ کریں ۔ جہاں اتنا زمانہ کوٹے کے ساتھ گزارا وہاں خالص میرٹ یا قابلیت کو بھی آزما دیکھیں !