ہم اب بھی چین اور کوریا کا ماڈل اپنا لیں تو تعلیم‘ سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ چین تحقیق اور ترقیاتی اخراجات میں امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ چین امریکہ سے دس گنا سائنسی تحقیق پر خرچ کر رہا ہے۔ ہم ابھی تک محصولات کی تقسیم میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ 2 سال گزرنے پر حکومت اب عوام کو خوش کرنے کا کارنامہ بھی دکھائے۔ سندھ کی ترقی کیلئے سب کو ایک ہونا ہوگا۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے باوجود نئے صوبوں کی آوازیں پھر اٹھنے لگی ہیں۔ اگست 2018ء میں الیکٹرسٹی سیکٹر میں گردشی قرضہ 1.2 کھرب روپے تھا۔ دسمبر 2020ء میں1.7 کھرب ہونے جا رہا ہے۔ 2025ء میں یہ چار کھرب کو چھو لے گا۔ دو سال میں گردشی قرضے میں 45 ارب روپے ماہانہ کا اضافہ ہوا ہے۔ چار جونکیں معیشت کا خون چوس رہی ہیں۔ جی ڈی پی کا 8 فیصد 3700ارب روپے کا خون دو سال میں چوس چکی ہیں۔ گندم‘ چینی‘ کھاد‘ ایل این جی‘ بجلی جونکیں ہیں۔ وفاقی حکومت 35000 ارب روپے کی مقروض ہے۔ ایف بی آر نے 532 ارب رپے میں فنڈز کرنے ہیں۔ 2019-20ء میں 13 ارب ڈالر کے غیرملکی قرضے لئے گئے۔ دو سال میں 29.2 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لئے گئے۔ ایمنسٹی سکیمیں بھی خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کی طرح بے اثر ثابت ہوئیں۔ 4000 ارب روپے کا سیل ٹیکس بچہ بچہ ادا کر رہا ہے۔ فیڈر‘ پیمپر‘ چاکلیٹ سے کفن تک سیلز ٹیکس دے رہا ہے۔ پنجاب بھر سے پینے کے پانی کے 346 نمونے تجزیئے کیلئے لیب بھجوائے گئے۔ ان میں سے ایک بھی معیاری نہیں پایا گیا۔ یہ نمونے سرکاری فلٹریشن پلانٹ پاور ٹیوب ویلوں سے لئے گئے تھے۔ مضر صحت پانی سے پیٹ کی بیماریاں‘ ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسے خطرناک امراض حدوں کو چھو رہے ہیں۔ ملک بھر میں پانی کی تقسیم کا نظام دیکھ بھال اور مرمت سے محروم ہے۔ انتخابات میں دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر میں ابھی تین سال کی مہلت ہے۔ کوئی چور ڈاکو اپنے انجام تک نہیں پہنچا۔ چینی کی قیمت مارکیٹ میں 100 روپے سے اوپر جا رہی ہے۔ سمگلروں‘ ذخیرہ اندوزوں سے مسروقہ گندم‘ آٹا اور چینی برآمد نہ ہوسکی۔ عدالتی پولیس اور انتظامی اصلاحات کدھر ہیں۔ وہی کلرک‘ پٹواری اور تھانیدار کی حکمرانی ہے۔ بیورو کریسی میں تبادلوں کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب میں دو سال میں 9 بار سیکرٹری بدلے گئے اور کسی ایک سیکرٹری نے کبھی کسی کالج یا یونیورسٹی کا اچانک دورہ نہ کیا۔ نہ ہی کبھی تبادلہ خیالات کیلئے طالبعلموں اور اساتذہ کو منہ لگایا۔ پنجاب کے ہزاروں ایم اے ایم ایس سی‘ ایم فل اور پی ایچ بے روزگار نوجوانوں کیلئے سرکاری کالجوں میں لیکچر شپ کی محض دو ہزار آسامیاں مشتہر کی گئی ہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح پی ایچ ڈی‘ ایم فل‘ فارن کوالیفائیڈ انجینئرز اور ڈاکٹرز کو ملازمتیں دینا ہونی چاہئے۔ حکومت کا حکم نامہ ہو تو پرائیویٹ سکیٹر بھی انہیں بآسانی ملازمتیں دے سکتا ہے۔ میٹرک‘ انٹر اور بی ایس آنرز کے امتحانات کے بعد نوجوانوںکیلئے 90 دن کی فیلڈ انٹرن شپ لازمی قرار دی جائے جو بازاروں میں قیمتوں‘ صفائی اور سڑکوں پر ٹریفک کی نگرانی کریں‘ گداگری کو مٹائیں۔ اس انٹرن شپ کو سوشل پبلک سروس کا نام دیا جائے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر بھی نیب کا کیمرہ نصب کرنے کی ضرورت ہے جہاں اجناس کی خریداری میں ایک ارب 55 کروڑ کے گھپلے کئے گئے۔ کمیشن‘ ہیر پھیر اور بدعنوانی کی داستان سر چکرا دے گی۔ (ختم شد)