"Agriculture and Patwari Culture!"

معزز قارئین!17 ستمبر کواسلام آباد ( ہری پور) کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر وزیراعظم عمران خان نے ’’پٹواری کلچر ‘‘ کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہُوئے تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو ہدایت کی ہے کہ ’’ وہ "Digitisation" (عددی نگارش) سے پٹواری اور "Corruption Culture" کو نیست و نابود کردیں !‘‘ ۔ جنابِ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ’’کمیونزم قوموں کی تباہی کا باعث بناانگریز کے غلام ذہن کی سوچ کو بدلنا ہوگا، مغرب ترقی کرسکتا ہے تو ہم نہیں ؟ یہ تاثر غلط ہے ‘‘۔ 
معزز قارئین!  وزیراعظم صاحب کے اِس بیان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ ’’ وہ ’’پٹواری کلچر ‘‘ (دراصل کرپشن کلچر) کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ‘‘ ۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’ اِس قبل بھی کئی حکمرانوں نے اِس طرح کے اعلانات کئے تھے لیکن ’’ پٹواری ثقافت ‘‘ یا ’’ قوتِ کار ‘‘ (Power) کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔  ’’ اوکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری ‘‘ کے مطابق ، انگریزی لفظ "Culture" کے معنی ہیں ’’ فنون اور دیگر  ذ ہنی کمالات ، کارنامے، کرشمے بحیثیت مجموعی ، تہذیب ، ثقافت ، خوش ذوقی، نفاست پسندی، ذ  ہنی مشاغل کا فروغ ، اعلیٰ دماغی وغیر ہ وغیرہ‘‘ اور "Agriculture" کے معنی ہیں ۔ ’’ زراعت ، کاشتکاری ، فلاحی ، جن میں مویشی پالنا بھی شامل ہے ‘‘۔
 ہندی زبان کے لفظ ’’پٹواری ‘‘ کے معنی ہیں ’’ گائوں کا حساب رکھنے والا‘‘۔ متحدہ ہندوستان میں افغان اور مُغل بادشاہوں کے دَور میں بھی پٹواری کا یہی کام تھا اور پھر انگریزوں کے دَور میں بھی۔ ’’ ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کے دَور کے افسروں کو علم تھا کہ "A Village Registrar or Accountant" کو پٹواریؔ کہتے ہیں ‘‘۔انگریزوں نے پاک و ہند میں تھانہ اور پٹوارؔی کلچر کو برقرار رکھا تھا اور اُنہوں نے تھانیداروں اور پٹواریوں سے کام لے کر اپنے وفاداروں کی بڑی کھیپ تیار کرلی تھی۔ 
اگست 1947ء میں پاکستان اور بھارت میں یہی صورت حال رہی۔ مرحوم گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا محمد امیر خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ’’ وہ خبر رکھتے تھے کہ ’’اُن کے اور اُن کے دوستوں کے گائوں میں کون تھانیدار ہے اور کون پٹواری؟ ‘‘۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے ایک پریس کانفرنس میں "Off the Record" بتایا کہ ’’ مَیں اپنے گائوں کے پٹواری کو رشوت دیتا ہُوں!‘‘لیکن، یہ بات "On the Record" ہوگئی؟
جب بھی کسی گائوں میں کوئی بھی زمین کا مالک انتقال کر جائے تو اُس کے وُرثاء کے نام زمین کا انتقال ؔ پٹواری کرتا ہے۔ یہ پٹواری کی صوابدید کہ ’’ وہ زمین کا انتقال ؔ کس کے نام؟ اور کیسے کرے؟‘‘۔ بعض اوقات زمین کے انتقالؔ میں اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ وُرثاء کا بھی انتقالؔ ہو جاتا ہے ۔ ایک پرانا واقعہ ہے کہ ’’ کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر اپنی گاڑی کو خود "Drive" کر رہا تھا کہ ’’ ایک بوڑھی عورت اُس کی گاڑی کے نیچے آنے سے بال بال بچ گئی ۔ ڈپٹی کمشنر نے اُس بوڑھی عورت سے پوچھا کہ ’’ اماں جی !آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘۔ تو اُس نے کہا کہ ’’ نہیں بیٹا!۔ مَیں ٹھیک ہُوں ، میری دُعا ہے کہ خُدا تمہیں ترقی دے کر پٹواریؔ بنادے !‘‘۔ 
معزز قارئین! پاکستان میں فوجی آمریت ہو یا اُس کے تابع جمہوریت ؟ صدر مملکت ، وزیراعظم ، گورنرز ، وزرائے اعلیٰ ، ارکان پارلیمنٹ اور چاروں صوبوں کے منتخب ارکان اپنے اپنے علاقے میں اپنی اپنی مرضی کا تھانیدار اور پٹواری تعینات کرا لیتے ہیں ۔ تھانیداروں اور پٹواریوں کی بھرتی بھی انہی کے سفارشوں پر ہوتی ہے ۔ دراصل ہمارا ’’سیاسی کلچر ‘‘اور ’’ تھانہ / پٹواری کلچر‘‘ ساتھ ساتھ جیتے / چلتے ہیں ۔ 1997ئ۔1999ء میں ’’ تھانوں میں لوگوں کی تذلیل کرنے والے پولیس افسروں کو ’’ اُلٹا لٹکانے ‘‘۔  اُنہیں زمین میں گاڑنے اور پٹواریوں کو ’’ عبرت کا نشان‘‘ بنانے کا اعلا ن کرنے والے ’’خادمِ اعلیٰ پنجاب‘‘ میاں شہباز شریف نے میڈیا پر بہت "Rush" لِیا تھا ۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب نے تو یہ بھی بار بار اعلان کِیا تھا کہ ’’ مَیں آصف علی زرداری سے لوٹی ہُوئی دولت واپس لینے کے لئے اُسے گرفتار کر کے لاڑکانہ ، لاہور ، کراچی ، پشاور اور کوئٹہ میںبھی گھسیٹوں گا ! ‘‘۔اِس پر میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے اپنی ایک نظم میں کہا کہ … ؎
باخُدا ! زرداری جی ،حیران ہیں!
کب گھسیٹے جائیں گے؟ انجان ہیں!
اور اِدھر ،ہذیان میں ، ہلکان ہیں؟
خادمِ اعلیٰ ، گھسیٹے خان ہیں!
…O…
خواب لوگوں کے ہُوئے ہیں، چکنا چُور!
بند ہیں کیوں ؟ سستی روٹی کے تنُور!
بھوک سے لاچار، سب اِنسان ہیں ؟
خادمِ اعلیٰ ، گھسیٹے خان ہیں!
…O…
’’پٹواری ماہیا!‘‘
معزز قارئین!  ’’ماہیا‘‘ پنجابی لوک گیتوں کے ایک صنف ہے ۔ ایک ماہیاؔ میں ،گائوں کی ایک مٹیار ( دوشیزہ)   اپنے گھر کی منڈیر پر بیٹھے ہُوئے کوّے سے مخاطب ہو کر کہہ رہی تھی کہ …؎
’’ کوٹھے اْتّوں ، اْڈّ کانواں ! 
 سدّ پٹواری نْوں،
 جِند ماہیے دے ، ناں لا واں ! ‘‘
یعنی اے کوّے میرے گھر کی منڈیر سے اْڑ جا اور پٹواری کو بْلا لا، تا کہ مَیں اپنی زندگی اپنے محبوب ؔکے نام لِکھ دوں‘‘۔ ایک پنجابی بولی میں ایک خاتون اپنے پٹواری شوہر کو یہ طعنہ دے رہی تھی کہ …؎
’’تْوں کاہدا پٹواری !
تے مْنڈا میرا 
 رووے اَمب نُوں !‘‘
یعنی’’ تم کتنے بے اختیار پٹواری ہو کہ میرے روتے ہوئے بیٹے کے لئے کسی زمیندار کے باغ سے آم بھی نہیں منگوا سکتے۔ ‘‘ 
معزز قارئین! مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ’’ اگر واقعی وزیراعظم عمران خان ’’ پٹواری کلچر‘‘ کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پٹواریوں سے متعلق ہمارے پنجابی ماہیا ؔ کا کیا بنے گا؟ 

ای پیپر دی نیشن