لمحے ترے فراق کے

 لمحے ترے فراق کے ڈستے رہیں گے کیا 
نوحے تمام عمر ہی لکھتے رہیں گے کیا 
ظلم و ستم پہ رونا وتیرہ بنا لیا 
سو خامشی پہ حادثے ہوتے رہیں گے کیا 
دشمن بنا دئیے گئے اک دوسرے کے ہم 
نفرت کے بیج قلب میں بوتے رہیں گے کیا 
دل کے قفس سے یار کو آزاد کیجیے 
شب بھر اسی کی یاد میں روتے رہیں گے کیا 
آتش نے گھیر رکھا ہے کب سے چمن مرا
نغمے پیام امن کے گاتے رہیں گے کیا 
ارزاں ہوئی ہے سانس ستم کے دیار میں 
ہو کر کھڑے قطار میں مرتے رہیں گے کیا 
ہے ریتلی زمین سے بادل گریز پا 
صحر ا ہمارے دھوپ سے جلتے رہیں گے کیا 
ہر حال میں جمود کا مطلب تو موت ہے 
ماجد قدم بڑھانے سے ڈرتے رہیں گے کیا 
     (  ماجد جہانگیر مرزا )

ای پیپر دی نیشن