جب میں خون کاعطیہ دیتاہوں
تب خود کوزندہ دیکھتاہوں
ماں کی گودمیں وہ بچے
موت سے لڑتے دیکھتاہوں
ماں باپ کی پرنم نگاہیں ہیں
اورحسرت یاس کی آہیں ہیں
خون کی اک بوتل کے لئے
جھولی کوپھیلائے دیکھتاہوں
میری ان کاوشوں کے راستے میں
اکتالیس سال گزارے ہیں
اس دکھ کے لمبے رستے میں
کچھ دوست احباب سہارے تھے
کچھ خاک نشین ہوچکے
ان کی آنکھیں اورچہرے دیکھتاہوں
جب میں خاک نشیں ہوجائوں گا
وہ بڑے جوکل بچے تھے
اپنے بچوں کواک کہانی سنائیں گے
اک باباجوہمارے ساتھ تھے
نام تھا شاید برھانی
اپنے خون میں دوڑتے دیکھتاہوں
(مرتضیٰ امیر علی برھانی)