لندن (بی بی سی)امریکہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے افغانستان میں اپنے مکمل فوجی انخلا سے قبل 10 معصوم شہریوں کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔امریکی سینٹرل کمانڈ کی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کابل میں 29 اگست کو امریکی ڈرون حملے میں ایک امدادی تنظیم کا کارکن اور اس کے خاندان کے نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں سات بچے شامل تھے اور سب سے کم عمر بچی سمیہ محض دو سال کی تھی۔سوشل میڈیا پر امریکہ کی جانب سے اس غلطی کو تسلیم کرنے کا بیان زیر بحث ہے۔ اس ڈرون حملے میں معصوم شہریوں کی ہلاکت پر بائیڈن انتظامیہ کو شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے بہت دیر بعد کسی ڈرون حملے میں غلطی کو تسلیم کیا جبکہ کچھ کے مطابق محض اس غلطی کو تسلیم کر کے معافی مانگنا ’ناکافی ہے۔‘یاد رہے کہ امریکہ نے یہ ڈرون حملہ کابل ایئرپورٹ پر خوفناک دہشت گرد حملے کے بعد کیا تھا۔بی بی سی کی نامہ نگار برائے امریکی دفتر خارجہ باربرا پلیٹ اشر کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب امریکہ افغانستان میں موجود نہیں، امریکی فوج کی یہ غلطی ’افغانستان میں مستقبل کے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کی درستگی پر سوالات اٹھاتی ہے۔‘انہوں نے کہا ہے کہ خطے میں کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک مثال بنی ہے کہ ڈرون کے ذریعے فوجی کارروائیوں سے خطرات لاحق ہیں۔امریکہ اور اسلامی تعلقات کی کونسل (سی اے آئی آر) کے نیشنل ڈائریکٹر ایگزیکٹو نہاد عوض نے کہا ہے کہ اس معاملے پر میڈیا نے اگر تحقیقاتی رپورٹس نہ کی ہوتیں تو ’امریکی فوج اسے جائز قرار دیتی، ان کئی ڈرون حملوں کی طرح جن میں افغانستان، پاکستان، یمن اور عراق میں ہزاروں ہلاک ہوئے۔
ڈرون حملہ، تنقید